فرحت عباس شاه
جب دیواریں پھیلتی ہیں
جب دیواریں پھیلتی ہیں ان سے کہو اب بھی وقت ہے ابھی کچھ بھی ہاتھ سے نہیں نکلا اپنے آپ کو کنکریٹ میں محصور مت…
جانے کس درد کا دیا ہوں میں
جانے کس درد کا دیا ہوں میں رات اور دن بہت جلا ہوں میں میں تو صدیوں سے بند مُٹھّی ہوں کب کسی پر کبھی…
تیری میری رونق ہے
تیری میری رونق ہے تیرے میرے ہی دم سے ورنہ مر ہی جائیں ہم دنیا داری کے غم سے اتنی سیرابی کیونکر پوچھیں گے چشم…
تیرا وصل ٹوٹ کے اتنا دور نکل گیا
تیرا وصل ٹوٹ کے اتنا دور نکل گیا کہ اجارہ داری ہجر بھی نہ رہی کہیں تھے جو جسم و جاں میں مفاہمت کے نقارچی…
اب کے برس بھی ہو گی میرے ساتھ انوکھی
اب کے برس بھی ہو گی میرے ساتھ انوکھی پچھلے برس بھی آئی تھی برسات انوکھی میں دیوانہ وار دھڑک اٹھا نگری میں اس نے…
آ اور میرے وجود میں
آ اور میرے وجود میں اُتر اے رات! آ اور مرے گلے لگ جا آ میں تمہاری آنکھیں، تمہارے ہونٹ تمہارے رخسار اور تمہاری پیشانی…
تو اپنے ہونے کا ہر اک نشاں سنبھال کے مل
تو اپنے ہونے کا ہر اک نشاں سنبھال کے مل یقیں سنبھال کے مل اور گماں سنبھال کے مل ہم اپنے بارے کبھی مشتعل نہیں…
تمہیں دیکھا تو دیکھا چاند جیسے
تمہیں دیکھا تو دیکھا چاند جیسے مری میں آنکھوں میں اترا چاند جیسے ہنسی گونجی مری یادوں میں تیری خوشی میں آ کے بولا چاند…
تمہاری راکھ آنکھوں کو شرارہ کچھ نہیں کہتا
تمہاری راکھ آنکھوں کو شرارہ کچھ نہیں کہتا تمہیں ویران بستی کا نظار کچھ نہیں کہتا انہیں معلوم ہے فریاد اک بیکار سی شے ہے…
تما شا
تما شا روز اداسی چہرہ بدلے روز دکھائے ہاتھ روز اک نئے سرے سے کھیلے بازی دل کے ساتھ فرحت عباس شاہ (کتاب – من…
تم سدا ظلم کرو اور میں کرم ہی جانوں
تم سدا ظلم کرو اور میں کرم ہی جانوں کم سے کم میں تو ترے زیادہ کو کم ہی جانوں مجھ سے وہ خوشیوں کے…
تم اک لمبا عرصہ ساتھ نبھاؤ گی
تم اک لمبا عرصہ ساتھ نبھاؤ گی اتنے برس طویل دکھوں کو کیسے بانٹیں وہ بھی جب ہم پل دو پل کی باتیں بانٹ نہیں…
تسکین
تسکین مجھے تمہارے لیے دربدر بھٹکنا اچھا لگتا ہے میری تسکین ہوتی ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
ترے پیار میں
ترے پیار میں کبھی دھند میں یا غبار میں کبھی بادلوں کی قطار میں کبھی پھول میں کبھی خار میں کبھی آرزوئے بہار میں کبھی…
تجھے گود بھر لوں تو دن چڑھے
تجھے گود بھر لوں تو دن چڑھے ابھی ہنس رہا ہوں میں پھوٹ پھوٹ کے ہنس رہا ہوں سُکھوں کی قبر میں لیٹ کے اسے…
پیشِ انسانیت
پیشِ انسانیت پسِ انسانیت ایک چھوٹا پرندہ کسی بڑے پرندے کے ہتھے چڑھا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا چڑیا کا بچہ روشندان میں بنے…
پھول کی سُکھ کی صبا کی زندگی
پھول کی سُکھ کی صبا کی زندگی مختصر ہے کیوں وفا کی زندگی کس نے دیکھا ہے خدا کی موت کو کس نے دیکھی ہے…
پلاننگ
پلاننگ میں نے سوچا ہے اب کی بار محبت پوری منصوبہ بندی سے کرنی چاہیے بھولپن میں کی ہوئی محبت نے جو جو کچھ دل…
پرانے راستے
پرانے راستے جھانکنی تمہاری محبت کے راستے میں ایک روندا ہوا پتہ اور ایک کُچلا ہوا کاغذ ہوں تمہاری ایڑیوں کی طرف حیرت اور کرب…
بیسویں صدی کی آخری نظم
بیسویں صدی کی آخری نظم راستہ یاد کریں زخموں کے اس جنگل کا اس زمانے کا کہ جب راکھ پہ اگ آتے ہیں اشجار کسی…
بے کیف و بے قرار نے سونے نہیں دیا
بے کیف و بے قرار نے سونے نہیں دیا شب بھر دلِ فگار نے سونے نہیں دیا بستی میں بے یقینی کا عالم تھا اس…
بے سہاروں کا سہارا کون ہے
بے سہاروں کا سہارا کون ہے ان دیاروں میں ہمارا کون ہے تک رہا ہے جو تمہیں اک عمر سے جانتے ہو یہ ستارہ کون…
بے چینی بھی ایک عجیب سی بیماری ہے
بے چینی بھی ایک عجیب سی بیماری ہے اندر اندر زنگ لگا دیتی ہے دل کو تیرے ساتھ زمانہ ہے اور میرے ساتھ کبھی کبھی…
بولو اے مستقل مزاج
بولو اے مستقل مزاج تم جھوٹ بھی بولو تو میں سب جانتے بوجھتے اُسے سچ سمجھوں تم کوئی بھی وعدہ ایفا نہ کرو تو میں…
بہتے رہنے کی کہانی سے ملی
بہتے رہنے کی کہانی سے ملی یہ ریاضت مجھے پانی سے ملی اشک ہوتی ہے عبادت یارو اور یہ مجھ کو جوانی سے ملی موت…
بہار ختم ہوئی انتظار ختم ہوا
بہار ختم ہوئی انتظار ختم ہوا تمھارا کھیل دل بے قرار ختم ہوا اب سے آگے نہ جیون نہ کوئی خوف نہ غم یہاں پہنچ…
بُزدلی
بُزدلی اپنے نمناک خیالات چھپا لو اُن سے جسم پہ اُن کے بنائے ہوئے معیار کی تختی ٹانگو وہ جو ہر قافلہِ صبح کی نفی…
بچھڑے یوں کہ ریت پہ گم سُم بیٹھے بیٹھے
بچھڑے یوں کہ ریت پہ گم سُم بیٹھے بیٹھے اُس نے میرا میں نے اُس کا جُرم لکھا فرحت عباس شاہ (کتاب – شام کے…
باہر بھی اپنے جیسی خدائی لگی مجھے
باہر بھی اپنے جیسی خدائی لگی مجھے ہر چیز میں تمہاری جدائی لگی مجھے جیون میں آج تیرے لیے رو نہیں سکا جیون میں آج…
بارُود
بارُود قدم قدم پر اونچی دیواریں کھڑی کرتے ہو اور احساس دلاتے ہو بیساکھیاں توڑ کے ہنستے ہو چھتوں پہ چڑھ کے سیڑھیاں کھینچ لی…
آئے ہیں چلو کچھ تو مرے کام کنارے
آئے ہیں چلو کچھ تو مرے کام کنارے میں آج سے کرتا ہوں ترے نام کنارے بڑھنے نہیں دیتے اسے اک گام کنارے دریا کے…
ایک عجیب نظم
ایک عجیب نظم تیری خواہش کی قسم مستقل دکھ نے طبیعت ہی بدل ڈالی ہے جھوٹے موٹے کسی بہلاوے سے ہم بھلا کب تھے بہلنے…
ایک دکھ سے دوسرے دکھ
ایک دکھ سے دوسرے دکھ تک پھٹی ہوئی آنکھوں فالج زدہ زبان اور مفلوج بازوؤں کا یہ سفر جو جانے کتنی صدیوں سے مجھے طے…
ایف بی آئی کے کتے
ایف بی آئی کے کتے ایف بی آئی کے ہزاروں کتوں نے القائدہ اور ہر اس شخص کے درمیان ان رابطوں کو سونگھ نکالا جو…
اے محبت، اے مری راہِ حیات
اے محبت، اے مری راہِ حیات کھینچ لو واپس مجھے ان بے حس و پتھر قبیلہ راستوں سے کھینچ لو اب مرے کانوں میں میرے…
اے خدا مجھ کو بتا
اے خدا مجھ کو بتا مضمحل ہم ہیں تو کیوں چاند بھلا سر کو دیے گھٹنوں میں سو رہا ہے کہ کبھی جاگنے والا ہی…
آوارہ پھرتے لوگوں کے دکھ
آوارہ پھرتے لوگوں کے دکھ گلی گلی آوارہ پھرتے لوگوں کے دکھ دہلیزوں کے اندر بیٹھے مورکھ کیسے جان سکیں فرحت عباس شاہ
آنگن میں آکے اترا نہ اوجھل ہوا کبھی
آنگن میں آکے اترا نہ اوجھل ہوا کبھی بن بن کے آرزو رہا آنکھوں کے پار چاند ہمراہ تھا تو ٹھہرا ہوا تھا یہیں کہیں…
آنکھ میں آنسو لائے کون
آنکھ میں آنسو لائے کون ایسا گیت سنائے کون اس کی یادیں بچھڑ گئیں پاگل من بہلائے کون اتنے صحرا موسم میں روئے اور رُلائے…
اندھے لوگ
اندھے لوگ یہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں کہ ہمیشہ پہلے والے بادشاہ کا تخت توڑ کے نیا تخت بناتے ہیں اور اس پہ ایک…
امن کمزور ہوتا جاتا ہے
امن کمزور ہوتا جاتا ہے جنگ نزدیک آتی جاتی ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – سوال درد کا ہے)
اگرچہ درد بھی کچھ کم نہیں ہے
اگرچہ درد بھی کچھ کم نہیں ہے ہمارے دل میں لیکن دم نہیں ہے جسے خود ہی کیا تاراج اس نے ہمیں اس سلطنت کا…
اک ویرانہ جس میں تصویریں نا پید
اک ویرانہ جس میں تصویریں نا پید اک خاموشی جس میں ساری باتیں گم بادل بھی آتے رہتے ہیں بارش بھی ہوتی رہتی ہے تنہائی…
اک رائیگاں ملال نے سونے نہیں دیا
اک رائیگاں ملال نے سونے نہیں دیا تنہائیوں کی چال نے سونے نہیں دیا شب بھر رہا ہے گردشِ خوں میں پُکارتا شب بھر ترے…
اک اک دل میں سو سو غم مہمان ہوئے
اک اک دل میں سو سو غم مہمان ہوئے چھوٹے چھوٹے شہر بھی کیا گنجان ہوئے جیون، میں اور تیری یادوں والی شام اچھے خاصے…
آشوب
آشوب راہگذر صاف نہیں بتدریج تہذیبی سلسلہ کئی جگہوں سے شکستہ ہو چکا ہے تاریخی شعور مجروح ہے بے قومیت راج، تخت اور تختہ محدودیت…
آسمان زمینیں اور ان کے درمیان
آسمان زمینیں اور ان کے درمیان آگ کے ہاتھ میں بازار تھما آئے ہیں کوٹ پر قرض کے کالر پہنے اور ملے خواب و خیالات…
اس میں بھی مجھ جیسا کوئی رہتا ہو گا
اس میں بھی مجھ جیسا کوئی رہتا ہو گا سورج کا پانا پامال ہے اپنے اندر چھا جاتی ہے یکدم اک خاموشی سی جنگل روتے…
اُس کو آتے ہیں بہانے کیسے
اُس کو آتے ہیں بہانے کیسے دور رہتا ہے نہ جانے کیسے فرحت عباس شاہ
اس طرح کا جیون میں حادثہ نہیں ملتا
اس طرح کا جیون میں حادثہ نہیں ملتا تم تلک پہنچنے کا واسطہ نہیں ملتا آرزو تو ملتی ہے جستجو نہیں ملتی منزلیں تو ملتی…