تم اک لمبا عرصہ ساتھ نبھاؤ گی

تم اک لمبا عرصہ ساتھ نبھاؤ گی
اتنے برس طویل دکھوں کو کیسے بانٹیں
وہ بھی
جب ہم پل دو پل کی باتیں بانٹ نہیں سکتے
آدھی کہہ پاتے ہیں
آدھی رہ جاتی ہیں
تم اک لمبا عرصہ ساتھ نبھاؤ گی
دکھ ہی اتنا لمبا ساتھ نبھا سکتا ہے
ان رستوں میں پیڑوں اور پودوں پر اگنے والے کانٹے
کہیں بھی نظر نہیں آتے
لیکن ہجر کی لمبی رات کے خار
اور کرچی کرچی دن کی تیز نکیلی دھاریں
اور سلاخیں اتنی زیادہ
جتنی میرے اک اک پل میں
تیری یاد اور دکھ
پودوں اور درختوں جیسی یاد
اور لمبے رستوں جیسے لمبے دکھ
اتنے برس طویل دکھوں کو کیسے بانٹیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *