سورج کا پانا پامال ہے اپنے اندر
چھا جاتی ہے یکدم اک خاموشی سی
جنگل روتے روتے شاید تھک جاتا ہے
بستی میں اب کوئی بھی ایسا نام نہیں
جس کے حرفوں سے پیغام کوئی ملتا ہو
تصویروں میں تیرے جیسی ہے ناممکن
لفظوں کی مالا میں تم سا لفظ نہیں ہے
آخر اک دن یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا
موت نے ہم کو ہر جانب سے گھیر لیا ہے
فرحت عباس شاہ