تیرا وصل ٹوٹ کے اتنا دور نکل گیا

تیرا وصل ٹوٹ کے اتنا دور نکل گیا
کہ اجارہ داری ہجر بھی نہ رہی کہیں
تھے جو جسم و جاں میں مفاہمت کے نقارچی
بڑی بے بسی سے خود اپنے دکھ میں بکھر گئے
ہیں کہیں کہیں ہمیں ماہ و مہر کی بندشیں
تری رہ میں ورنہ ہمارا رکنا محال ہے
تجھے آرزوؤں پہ ناز ہے مجھے درد پر
اگر اپنا اپنا فریب ہے تو یہی سہی
جہاں بے شمار ہوں ضبط غم کی نشانیاں
اسے ضبط غم کی دکان کہنا غلط نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *