آسمان زمینیں اور ان کے درمیان

آسمان زمینیں اور ان کے درمیان
آگ کے ہاتھ میں بازار تھما آئے ہیں
کوٹ پر قرض کے کالر پہنے
اور ملے خواب و خیالات کے بوٹوں پہ لہو کی پالش
زخم کا شہر سجا آئے ہیں
خوش نصیبی کسی میت پہ مہکتے ہوئے کافور سے اگتی ہوئی لگتی ہے تو پھر
چشم تمنا کا خدا ہی حافظ
آرزوؤں ہی سے بینائی ملا کرتی ہے
ہم نے جس رنگ سے رنگے ہیں کفن ہاتھوں کے
ہم نے جس وہم کے لشکارے کو دل سونپا ہے
دکھ کی دہلیزیں بلاتی ہیں قریب
اپنے مکانوں کے کہیں عین قریب
اور جب دل کی چھتیں ٹیکنے، پیشانیاں نکلیں گی سرعام
لب سنگ سیاہ
دکھ کی دہلیز سے آسان نہیں اٹھ جانا
اور جب سر بھی بہت بھاری ہوں
پاؤں بھاری ہوں تو ہر ممکنہ تخلیق نگہبانی بہت مانگتی ہے
اور جب سر بھی بہت بھاری ہوں
اور بندھ جائیں گھٹا ٹوپ کمالات کی چوکاٹھوں سے
ہانپتی کانپتی چوکاٹھوں سے
اور فطرت تو بتاتی ہے کہ فطرت کیا ہے
ایک بربادی مکمل ہے یہاں
ایک ویرانی کل
راکھ اور سرد ہوا
خاک اور اڑتی ہوئی خاک بہت دور تلک
آگ کے ہاتھ میں بازار تھما آئے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *