فرحت عباس شاه
مسافت کا اثر اچھا لگا ہے
مسافت کا اثر اچھا لگا ہے بہت دن بعد گھر اچھا لگا ہے طبیعت ہی کچھ ایسی ہو گئی ہے ہمیں تنہا سفر اچھا لگا…
مِرے خواب میری کہانیاں
مِرے خواب میری کہانیاں مِرے بے خبر تجھے کیا پتہ مرے بے خبر تجھے کیا پتہ تری آرزوؤں کے دوش پر تری کیفیات کے جام…
مرا سوہنا پاکستان وطن
مرا سوہنا پاکستان وطن روح وطن مری جان وطن مرا عشق مرا ایمان وطن کوئی میلی آنکھوں سے دیکھے نہیں اتنا بھی آسان وطن مرا…
مدت سے چھپایا ہوا غم کھلنے لگا ہے
مدت سے چھپایا ہوا غم کھلنے لگا ہے آوارہ مزاجی کا بھرم کھلنے لگا ہے سانسوں کی حرارت تو بڑھے گی کہ بدن پر ساون…
محبت میں انا کا کردار
محبت میں انا کا کردار اس سے ملنا نہیں عمر آنکھوں کے صحراؤں میں آ کے کٹنے لگی ہے جدائی کسی جانکنی کے تڑپتے پلوں…
محبت کرنے والی لڑکی
محبت کرنے والی لڑکی جیسے تپتے صحراؤں میں گم کردہ مسافر جیسے خالی رستوں پر مدتوں سے اٹکی ہوئی نمناک نگاہ جیسے ویران ہو جانے…
محبت اور دریا
محبت اور دریا محبت میں ایسی دریا دلی اچھی نہیں کچھ بھی باقی نہیں رہتا ہر شے بہہ کے دور چلی جاتی ہے کبھی کبھی…
مجھے شہر میں نہ ملا کرو
مجھے شہر میں نہ ملا کرو مجھے شہر میں نہ ملا کرو کسی دن ہجوم لتاڑڈالے گا تیرے میرے وصال کو کسی دن نفوس کی…
مجھے اپنے حسن کا خون رکھنا ہے ٹھیک سے
مجھے اپنے حسن کا خون رکھنا ہے ٹھیک سے تو میں کس لیے تمہیں لال رنگ کے خواب دوں سم ہجر دھیرے سے پھیل جاتا…
مجھ سے پوچھے بتائے بنا
مجھ سے پوچھے بتائے بنا کیا تم مجھے بیچ دینا چاہتے ہو خود اپنے ہاتھوں اور کیا تم اپنا آپ خود اپنے آپ سے خرید…
لوح
لوح باد گرد تمہارے لیے آنکھیں بیچ دیں کلائیاں باندھ کے گروی رکھ آیا دل کو دو دیواروں کے درمیان زندہ دفن کر دیا قسمت…
لگ تو یہی رہا تھا کہ تنہا نہیں ہوں میں
لگ تو یہی رہا تھا کہ تنہا نہیں ہوں میں دیکھا تو شہر بھر تھا مرے دشمنوں کے ساتھ اب جانے کون کون مرے پاؤں…
لا علمی کی دوسری نظم
لا علمی کی دوسری نظم () مجھے معلوم ہے میرے بچھڑ جانے سے تنہائی کے کتنے دُکھ تمہاری رُوح کے گُم سُم خلا میں سرسرا…
گھرا ہوا ہوں ان گنت اداسیوں کے درمیاں
گھرا ہوا ہوں ان گنت اداسیوں کے درمیاں میں دیوتا ہوں اپنی دیوداسیوں کے درمیاں کبھی تو بھولتا ہوں گھر کا راستہ کبھی تمھیں میں…
گم کہاں ہو
گم کہاں ہو تم کہاں ہو کھوہ کی مانند یادوں کی پرانی غار میں تیرا چہرہ تیری آنکھیں اور وابستہ تری آنکھوں سے میرے بے…
گرفت
گرفت دَر گرفت صورتحال ہمیشہ حالات کے قابو میں ہوتی ہے حالات کبھی بھی قابو میں نہیں رہے سڑکیں صرف حادثوں کے قابو میں ہیں…
گرتا رہا ہوں وہ بھی سہارے کے ساتھ ساتھ
گرتا رہا ہوں وہ بھی سہارے کے ساتھ ساتھ جی ڈوبتا رہا ہے کنارے کے ساتھ ساتھ ہم بھی رہے ہیں کونسے سکھ میں ترے…
ریاضتیں مسافتیں
ریاضتیں مسافتیں تم نے ٹھیک کہا خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے لیکن اگر گفتگو کی بھی اپنی خاموشی ہو تو پھر کبھی کبھی ہم…
کیا تم اسے بھول
کیا تم اسے بھول گئے وہ، جس نے تمہارے خوابوں میں آنکھیں اور تمہارے راستوں میں پاؤں زخمی کر لئے ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس…
کوئی کھوج اپنے گیان سے ہے جڑا ہوا
کوئی کھوج اپنے گیان سے ہے جڑا ہوا مجھے خار خار میں رولنا ترے کھوج کا مجھے راکھ راکھ میں تولنا تری موج کا مری…
کوئی پتھر کوئی الزام ترے شہر سے آئے
کوئی پتھر کوئی الزام ترے شہر سے آئے کوئی دھوکہ ہی مرے نام ترے شہر سے آئے ہم یہ چاہیں کہ تو چاہے ہمیں کھل…
کون آئے گا؟
کون آئے گا؟ کالی رات اکیلا کمرہ روز کسی نادیدہ چاند کے سوگ میں ڈوبا اک اک لمحہ اک اک لمحہ خوفزدہ خاموشی کا تابوت…
کھلاڑی
کھلاڑی خالی ہاتھوں اور کھوکھلی باتوں کا کھیل کھیلنے والے کبھی آؤ! اور ایک بار پھر کھیل کے دیکھو حیرت زدہ رہ جانے کے لئے…
کن ویرانوں کا اسیر کر گئے ہو
کن ویرانوں کا اسیر کر گئے ہو مجھے راستے ہی بدلنے دیے ہوتے ذرا سنبھلنے دیا ہوتا مجھے کن زندانوں میں قید کر گئے ہو…
کشتیاں ساحلوں پہ لوٹ آئیں
کشتیاں ساحلوں پہ لوٹ آئیں اس طرف دور تک سمندر تھا کیا کریں ہم تمہارے آوارہ بند گلیاں اگر نصیب میں ہوں طائران قفس نصیب…
کسی بارے نہیں ہوا معلوم
کسی بارے نہیں ہوا معلوم اب کہاں ہے کوئی خدا معلوم زندگی مخمصہ ہے جینے کا سانس ہے گمشدہ ہوا معلوم اس کو بھی مجھ…
کچھ نہ کچھ شور مچائیں گے ضرور
کچھ نہ کچھ شور مچائیں گے ضرور درد چپ چاپ تو جانے سے رہے زندگی تیرے یہی طور ہیں تو ہم ترا ساتھ نبھانے سے…
کتنے ساون میرے ہر سو آجاتے ہیں
کتنے ساون میرے ہر سو آجاتے ہیں ہنستے ہنستے آنکھ میں آنسو آجاتے ہیں تیرا عکس نظر آتا ہے پانی میں تو چاند ستارے آپ…
کبھی فاصلوں پہ کبھی قیام پہ زندگی
کبھی فاصلوں پہ کبھی قیام پہ زندگی میں نے ہنس کے لکھ دی تمہارے نام پہ زندگی میں شروع سے ہی تھا راہِ عشق پہ…
کائنات
کائنات بس اک تجھ سانول کی ذات ہے اپنا کُل جہان باقی وہم گمان فرحت عباس شاہ (کتاب – من پنچھی بے چین)
قلم اٹھایا اور بہت کچھ پھینک دیا
قلم اٹھایا اور بہت کچھ پھینک دیا میں نے دیکھا، فکر و ادراک اور شعور کی روشنی بانٹنے کے دعویدار اپنی اپنی پیچیدگیوں میں الجھے…
فی زمانہ
فی زمانہ سر جھکا کر چلتے چلتے گردنیں خمیدہ ہو گئی ہیں بوجھ اٹھا اٹھا کر کمریں کچی اور ٹوٹی پھوٹی گلیوں سے آیا ہوں…
فبئ الا ربّکما تکذّبان
فبئ الا ربّکما تکذّبان او میرے یار ہوا جب سے محبت پیار کا کاروبار ہے دل بیزار بہت بیمار کہ یہ بیوپار ہمیشہ ہی بنا…
غم کا مارا کبھی نہ ہو کوئی
غم کا مارا کبھی نہ ہو کوئی بے سہارا کبھی نہ ہو کوئی جب ہر اک شخص ہو فقط دریا جب کنارا کبھی نہ ہو…
عقل دے موٹے لوکاں وچ میں پھسیا جے
عقل دے موٹے لوکاں وچ میں پھسیا جے کتنے چھوٹے لوکاں وچ میں پھسیا جے جھوٹے ، چور ، منافق ، بد ، کمینے تے…
عشق تیرے مسافروں پہ سدا
عشق تیرے مسافروں پہ سدا زندگی عمر بھر عذاب رہی فرحت عباس شاہ (کتاب – محبت گمشدہ میری)
عجب طرح کا گھوم ہے
عجب طرح کا گھوم ہے معاشرہ ہجوم ہے گھروں میں بین گونجتے گلی گلی میں دھوم ہے یا ماہر گہن ہے خوش یا ماہر نجوم…
صورتِ عکس محبت ہی نہ رکھا جائے
صورتِ عکس محبت ہی نہ رکھا جائے اب کوئی سنگِ ملامت ہی نہ رکھا جائے ہاتھ بڑھ آئے نہ کوئی کہیں ایوانوں تک شہر میں جرم…
صداؤں کے بس میں کچھ نہیں ہے
صداؤں کے بس میں کچھ نہیں ہے سکوت تم ہی یہ بھید کھولو سکوت تم کوئی بات بولو کہو کہ کوئی گھٹن ہے اندر گھٹن۔۔…
شہروں جیسی رونق ہے
شہروں جیسی رونق ہے ویرانوں کے باسی میں دھوپ اگانا چھوڑ بھی دو میری مٹی پیاسی میں کہاں تلک ساتھ آؤ گے اتنی زرد اداسی…
شہر بے یقین
شہر بے یقین اماوَس کی آخری رات راستے بھی نصیبوں کی طرح ہوتے ہیں ممکن ہے تمہیں بھٹکا دیں میری طرح میں بھی تو بھٹکا…
شعر چوری سے نہیں ، آتا ہے احساس کیساتھ
شعر چوری سے نہیں ، آتا ہے احساس کیساتھ تیری فطرت ہے کبھی مال کبھی ماس کیساتھ تو تعلق کو نبھاتے ہوئے مرجاتا ہے ختم…
شام ویران ہے ہوا خاموش
شام ویران ہے ہوا خاموش کون اس شہر سے گیا خاموش ایک مدت سے لوگ بولتے ہیں ایک مدت سے ہے خدا خاموش آنکھ سے…
سودائی
سودائی ہر شام ڈھلے تم روز کسے گھر لے آتے ہو اس کے پیراہن کی دھجی اس کے جوتے کے تلوے سے ملتا جلتا تلوا…
سُنو لوگو!
سُنو لوگو! اکیلا میں نہیں زخمی مرے جیسے ہزاروں ہیں جو اپنے ان گنت قاتل دکھوں کو اپنی اپنی پیٹھ پر لادے مسلسل ٹھوکریں قدموں…
سکوتِ دل میں صدا ہو گیا کوئی نہ کوئی
سکوتِ دل میں صدا ہو گیا کوئی نہ کوئی نہ مل سکا تو دُعا ہو گیا کوئی نہ کوئی میں کس کو پوچھنے نکلوں کسے…
سفر کا بار سفر کی اساس پر رکھا
سفر کا بار سفر کی اساس پر رکھا کہ ہم نے دل ترے دریائے پیاس پر رکھا الگ ہوا جو کبھی دکھ تری جدائی کا…
سخت ویرانی کے ڈر سے نکلے
سخت ویرانی کے ڈر سے نکلے شام ڈھل آئی تو گھر سے نکلے تو نے اچھا ہی کیا چھوڑ دیا ہم ترے زادِ سفر سے…
سَاون
سَاون ساون کی بنیاد میں کس کے آنسو ہیں؟ صدیوں پہلے شاید کوئی صدیوں بیٹھ کے رویا ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – من پنچھی…