شہر بے یقین

شہر بے یقین
اماوَس کی آخری رات
راستے بھی نصیبوں کی طرح ہوتے ہیں
ممکن ہے تمہیں بھٹکا دیں
میری طرح
میں بھی تو بھٹکا ہوا ہوں
یا شاید تھا
اس ہوں اور تھا کے درمیان ابھی ایک گمان باقی ہے
تمہارے دل کے کس کونے میں اُونگھتا گمان
جس سے آگے کتنے نصیب پھوٹتے ہیں
بھٹکانے والے
ایک خوف میرے دل کے کسی کونے میں بھی ہے
اپنے راستوں کا خوف
یا شاید میرے اور
تمہارے نصیبوں کا خوف
یہ یا اور شاید بھی عجیب لفظ ہیں
ہمارے راستوں کی طرح
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *