قلم اٹھایا اور بہت کچھ پھینک دیا

قلم اٹھایا اور بہت کچھ پھینک دیا
میں نے دیکھا، فکر و ادراک
اور شعور کی روشنی بانٹنے کے دعویدار
اپنی اپنی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے
ایسے جینئس ہیں
جن کے پاس کوئی ہمت
کوئی رخ نہیں ہے
جن کے پاس کوئی بڑا مقصد نہیں ہے
میں نے عزم کیا
اور قلم اٹھا لیا
قلم اٹھایا
اور بہت سے ہتھیار پھینک دیے
جھوٹ پھینک دیا
حرص پھینک دی
غرض پھینک دی
خوف پھینک دیا
خوشامد پھینک دی
اور ڈپلومیسی بھی
مصلحت بھی
اور شک بھی
ایسے بہت سے کار آمد ہتھیار پھینک دیے
جو مجھ سے پہلے دانشوروں نے اٹھائے ہوئے تھے
میں نے قلم اٹھایا تو وہ مسکائے
اور جب ایسے تمام ہتھیار پھینک دیے
جو ان کے پاس تھے
تو سب بے اختیار کھلکھلا کر ہنس دیے
اور سب نے مل کر
مجھ پہ انگلیاں تاں لیں
وہ دن اور آج کا دن
جہاں جاتا ہوں
سچ کی پاداش میں
بہت سی زرد اور سیاہ انگلیاں
مجھ پر اٹھ جاتی ہیں
اور کوشش کی جاتی ہے
کہ بہت ساری چیزوں سے محروم کر دیا جاؤں
راستوں سے،
نقشوں سے،
سمت پیماؤں سے،
بادبانوں سے،
کشتیوں سے، پرندوں کی پرواز کے منظر
اور ستاروں کی استقامت سے
جہاں جہاں، جس جس کا بس چلتا ہے
راستہ روک دیتا ہے
یا کالی بلی بن کے
راستہ کاٹتے ہوئے
گزر جاتا ہے
یہ پہاڑ اٹھا سکتے،
تو میرے ہر طرف لا کر کھڑے کر دیتے
اور ایک آدھ میرے سر پہ بھی دھر دیتے
پہ ہلکے،
بے وزن
اور کھوکھلے لوگ
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *