مسافت کا اثر اچھا لگا ہے

مسافت کا اثر اچھا لگا ہے
بہت دن بعد گھر اچھا لگا ہے
طبیعت ہی کچھ ایسی ہو گئی ہے
ہمیں تنہا سفر اچھا لگا ہے
چلے آنا مرا یوں بن بتائے
بتا بھی دو اگر اچھا لگا ہے
اداسی راس ہے نا اس لیے بھی
ہمیں اجڑا شجر اچھا لگا ہے
صبا بھی ٹھیک ہے لیکن ہمیں تو
صبا کا ہمسفر اچھا لگا ہے
عجب کچھ ہے مرے اُس بیوفا میں
مجھے بارِ دگر اچھا لگا ہے
کہیں دکھ ہے تو سکھ بھی ہے کہیں پر
ستاروں کا ڈگر اچھا لگا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *