محبت میں انا کا کردار

محبت میں انا کا کردار
اس سے ملنا نہیں
عمر آنکھوں کے صحراؤں میں آ کے کٹنے لگی ہے
جدائی کسی جانکنی کے تڑپتے پلوں کی طرح
جسم و جاں میں اتر کر لرزنے لگی ہے
ہوا برف بن کے ٹھٹھرتی اداسی کے ہمراہ
سوچوں کے سنسان گھر میں اترنے لگی ہے
مگر
اس سے ملنا نہیں
دل دھڑکتا ہے
لیکن خوشی کا کوئی گیت بجتا نہیں
بارشیں ہو رہی ہوں بدن بیگھتا ہی نہیں
سانس چلتی ہے
احساس ہوتا نہیں
اور اگر چہ شبیں سانپ بن کے
خیالوں کے نازک بدن سے لپٹنے لگی ہیں
رگیں صبر کے جبر سے گویا پھٹنے لگی ہیں
مگر ہم انا کے جزیروں میں
جس جس جگہ جم چکے ہیں
وہاں سے بھی ہلنا نہیں
چاک کچھ اس طرح سے ہوا ہے جنوں میں حسیں پیرہن
اس سے مل کے بھی سلنا نہیں
لاکھ صورت بنے
بے نشاں موسموں میں کوئی پھول کھلنا نہیں
اس سے ملنا نہیں
عمر آنکھوں کے صحراؤں میں آکے کٹنے لگی ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *