فرحت عباس شاه
جاگتا ہوں یا خواب ہے یارب
جاگتا ہوں یا خواب ہے یارب زندگانی عزاب ہے یارب اختیار ، اقتدار اور دولت سارا کچھ ہی سراب ہے یارب کچھ طبیعت ہماری ٹھیک…
تیری طرف سفر کا اشارہ نہیں ملا
تیری طرف سفر کا اشارہ نہیں ملا مجھ کو سمندروں میں ستارہ نہیں ملا تم نے ہمیشہ غم کی پنہ میں رکھا مجھے کیسے کہوں…
تو نے کس خواب کے تابوت میں ڈالا ہے مجھے
تو نے کس خواب کے تابوت میں ڈالا ہے مجھے تو کس عالم بے حال میں لا پھینکا ہے ایسے محبس میں تو بینائی چلی…
آ مل سانول یار وے
آ مل سانول یار وے کبھی آ مل سانول یار وے مرے لوں لوں چیخ پکار وے مرا سانول آس نہ پاس نی مری ارتھی…
تو کشتیوں میں رہے میں کوئی کنارا بنوں
تو کشتیوں میں رہے میں کوئی کنارا بنوں تمہیں جہاں بھی ضرورت ہو میں سہارا بنوں تو چھت پہ آئے تو شب بھر میں چاند…
تہِ بارِ سنگِ گراں ہے دل کہ ہے خاک خاک اٹا ہوا
تہِ بارِ سنگِ گراں ہے دل کہ ہے خاک خاک اٹا ہوا کہیں فرد فرد سے رابطے کہیں شہر بھر سے کٹا ہوا مجھے بھیجتے…
تمہاری یاد میں ہم
تمہاری یاد میں ہم موسم گل میں جہاں بھی کہیں پھول آتے ہیں جمع کرتے ہیں انہیں اور وہیں بھول آتے ہیں فرحت عباس شاہ…
تمہارے بغیر
تمہارے بغیر سیلاب میں ڈوبا ہوا راستہ بند دروازہ اور مرا ہوا ٹیلی فون دل اور دل کے درمیان ٹھہری ہوئی بلائیں شہر کے حالات…
تم نے گھولا ہے کیا ہواؤں میں
تم نے گھولا ہے کیا ہواؤں میں رنج ہی رنج ہے فضاؤں میں آج تو یوں گزر رہی ہے صبا جیسے پازیب سی ہو پاؤں…
تم جب بچھڑ کر جا رہے تھے
تم جب بچھڑ کر جا رہے تھے تم جب بچھڑ کر جا رہے تھے تو تمہارے قدموں کی چاپ میرے دل پر پڑ رہی تھی…
تقدیروں کے موسم میں
تقدیروں کے موسم میں محنت کتنی کر لو گے آپ اپنی ذلت سے بچ آپ اپنی تقدیر بنا بے دست و پا رہنے سے ناکامی…
تری ہر ایک جہت دل کا مستقر کرتے
تری ہر ایک جہت دل کا مستقر کرتے ترے علاوہ ترے درد بھی بسر کرتے ہم آئے دن تجھے رنگتے غموں کے رنگوں سے ہم…
ترا ہجر بڑا بدذات
ترا ہجر بڑا بدذات مرے پیڑ گئے سب جل مرے سوکھ گئے سب پھل مرے سپنے ہو گئے شل کوئی بھیج دکھوں کا حل مرے…
تجھ بن نین ترس جاتے ہیں
تجھ بن نین ترس جاتے ہیں بارش وار برس جاتے ہیں نیند عجب صحرا ہے جس میں سارے خواب جھلس جاتے ہیں کبھی کبھی کچھ…
پیار میں یوں دشمنی زیرِ زمیں کرتے نہیں
پیار میں یوں دشمنی زیرِ زمیں کرتے نہیں جس طرح تو نے کیا یہ تو کہیں کرتے نہیں جس نے تیرے دل سے باہر آ…
پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے
پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے میں بھی انا پرست تھا وہ بھی انا پرست فرحت عباس شاہ (کتاب – ہم جیسے آوارہ…
پڑ گیا پھیکا اگرچہ مری دستار کا رنگ
پڑ گیا پھیکا اگرچہ مری دستار کا رنگ خود غرض ہونا پڑا دیکھ کے بازار کا رنگ خوں رلاتا ہے ترے بن در و دیوار…
پتھر اور آئینے
پتھر اور آئینے میں نے سوچ لیا ہے مجھے پتھر بن کر رہنا ہے اور میں نے یہ بھی سوچ لیا ہے اپنے آئینوں پر…
بے یقینی سا یقیں ہوں میں بھی
بے یقینی سا یقیں ہوں میں بھی جس جگہ سب ہیں وہیں ہوں میں بھی لوگ دم سادھ کے سب پھرتے ہیں دم بخود ہوں…
بے قراری کے سنگ کیا کرتے
بے قراری کے سنگ کیا کرتے ہم ترے بعد جھنگ کیا کرتے اس لیے کینوس لپیٹ لیا آپ اداسی کے رنگ کیا کرتے اسلحہ تھا…
بے سبب ہی تلاش کرتا ہوں
بے سبب ہی تلاش کرتا ہوں وہ مرے آس پاس بکھرا ہے فرحت عباس شاہ (کتاب – چاند پر زور نہیں)
بے چین ہوا ، مت بول پیا کے لہجے میں
بے چین ہوا ، مت بول پیا کے لہجے میں میرا دل نہ جلا ، مت بول پیا کے لہجے میں مِرا دل کٹتا ہے…
بوجھ
بوجھ بات بھی بوجھ بڑھا دیتی ہے خاموشی بھی ایک الجھے ہوئے گمنام تعلق کی سزا کرب کی دہری سلامی کے طفیل بات سے ذات…
بہت مدت بعد
بہت مدت بعد رات! ایسے نہ گزر رات! ایسے نہ گزر ٹھیر ذرا ٹھیر مجھے ملنے دے اس کی آواز کی پرچھائیں سرِ کوچہِ دل…
بقا
بقا ہم کو یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی امتحاں بھی نہ باقی رہے خواب کے نا تراشیدہ ٹکڑے جو نیندوں کی یخ انگلیوں میں…
برزخ
برزخ بے سروپا آرزوؤں کے دھڑوں کا بوجھ کر دیتا ہے پل بھر میں ضعیف ورنہ کوئی ضعف انساں کو جھکا سکتا نہیں اپنے ہاتھوں…
بچھڑ رہا ہو جہاں بھی کہیں کوئی ساتھی
بچھڑ رہا ہو جہاں بھی کہیں کوئی ساتھی عجیب ہے کہ کوئی روکنے نہیں آتا فرحت عباس شاہ
باعث غم
باعث غم غبار احتیاج و ابتلا میں فشار زندگی کی انتہا میں قطار اندر قطار مبتلا میں حصار اعتناء ہے اور دل ہے فرحت عباس…
باتیں
باتیں میں ہر رات سونے سے پہلے بہت ساری باتیں لپیٹ کے تکیے کے نیچے رکھ دیتا ہوں اور خوابوں میں انہیں دوسروں کے تکیوں…
ایک وقت ایسا تھا جب ترے علاوہ بھی
ایک وقت ایسا تھا جب ترے علاوہ بھی کچھ اداس لمحوں کا رابطہ رہا مجھ سے فرحت عباس شاہ (کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
ایک سے ایک خواب میں یارو
ایک سے ایک خواب میں یارو رہ رہا ہوں شباب میں یارو ڈر گیا ہوں بُرے زمانے سے چھُپ گیا ہوں کتاب میں یارو مجھ…
ایک بھی دل ہے گر ابھی زندہ
ایک بھی دل ہے گر ابھی زندہ ہو ہی جائیں گے ہم سبھی زندہ ویسے تو قوم ساری مُردہ ہے پر لگی ہے کبھی کبھی…
ایسی دیوانگی بھلا کب نظر آتی ہے
ایسی دیوانگی بھلا کب نظر آتی ہے عجیب و غریب نوجوان تھا بظاہر بہت کمزور اور ناتواں لیکن آہنی برداشت کا مالک اور پہاڑ عزم…
اے رحمت کُل میری طرف بھی تو نظر ہو
اے رحمت کُل میری طرف بھی تو نظر ہو مجھ رات کے مارے کے نگر میں بھی سحر ہو میں آنسو بہاتا رہوں چلتا رہوں…
اے اداسی اے ہماری ہمسفر
اے اداسی اے ہماری ہمسفر اے اداسی اے ہماری ہمسفر رات کب بیتے گی دن گزرے گا کب آنکھ کب روئے گی کب بولیں گے…
او مرے گم سم خداوندا
او مرے گم سم خداوندا او مرے گم سم خداوندا زمانے کی گذیدہ بے زبانی میں کسی پیوند کاری کا دریدہ سلسلہ کس طاق پر…
آنکھوں میں مری دیپ جلایا نہیں تم نے
آنکھوں میں مری دیپ جلایا نہیں تم نے اب تک تو کوئی قول نبھایا نہیں تم نے اک جھولا پڑا تھا مری خواہش کے شجر…
آنکھ سے آںکھ کی دلداری ابہام ہوئی
آنکھ سے آںکھ کی دلداری ابہام ہوئی اچھی خاصی کوشش تھی ناکام ہوئی دکھ کے سائے امیدوں سے لپٹ گئے روتے روتے جب آنکھوں میں…
انجانے ہیں خوف مجھے
انجانے ہیں خوف مجھے روز دھڑکتا رہتا ہوں بے کاری کے لمحوں میں یادیں گنتا رہتا ہوں روز ادھوری خواہش کی ویرانی بڑھ جاتی ہے…
الوداع
الوداع الوداع! جاؤ! خدا حافظ اشکوں سے بھری ہوئی آنکھوں کو صاف دکھائی نہیں دیتا جاؤ! اللہ نگہبان یا بہہ جائیں درد دل میں رہے…
اگر وہم و گماں کی حد میں آئے
اگر وہم و گماں کی حد میں آئے خدا بھی حادثوں کی زد میں آگئے فرحت عباس شاہ (کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
اک نام محمدؐ میں ہے افلاک کی دولت
اک نام محمدؐ میں ہے افلاک کی دولت اللہ نے دے دی ہمیں لولاک کی دولت احساس بھی بخشا مجھے معیار کا ان کے اور…
اک خوف ہے اک سایہ ہے ویران سڑک پر
اک خوف ہے اک سایہ ہے ویران سڑک پر اور وہم مرا لایا ہے ویران سڑک پر ہے دور تلک پھیلا ہوا شام کا منظر…
اقرار گئے انکار گئے ہم ہار گئے
اقرار گئے انکار گئے ہم ہار گئے آنکھوں سے سب آثار گئے ہم ہار گئے کچھ یادیں اُس کی بیچ سمندر ڈوب گئیں کچھ سپنے…
اسے کہنا کہ اب جب چاند نکلے
اسے کہنا کہ اب جب چاند نکلے پرانی بستیوں پر گیت لکھے سفر کی رات ہے اور زندگی ہے تمہاری بات ہے اور زندگی ہے…
استہزاد
استہزاد لیکھ بے سمت و تعین سوچ بے دیوار و در من بھی نادیدہ کہاوت کی طرح بس اک کہاوت دل مہاوت بن کوئی فیلِ…
اُس کے وعدے کی رات جانے کیوں
اُس کے وعدے کی رات جانے کیوں چاند تاریخ بھول جاتا ہے ہم رُکے تھے ترے لیے لیکن تو سفر ہی بدل گیا اپنا عشق…
اُس کا دل صحرا تھا وہ صحرا بسانا رہ گیا
اُس کا دل صحرا تھا وہ صحرا بسانا رہ گیا وقت بدلا اور سبھی ملنا ملانا رہ گیا ہر طرح سمجھا لیا دل کو ہوائے…
اس سے بچھڑ کر
اس سے بچھڑ کر بارش اس سے جا کر کہنا اس سے بچھڑ کر ساون ہم سے دور ہوا اور ہم ساون سے دور ہوئے…
آزاد مکالماتی غزل
آزاد مکالماتی غزل تمہاری یاد میرے قیمتی پل چھین لیتی ہے انہی یادوں سے لمحے قیمتی ہوتے ہیں جیون کے نہ جانے کیوں ابھی تک…