تو نے کس خواب کے تابوت میں ڈالا ہے مجھے

تو نے کس خواب کے تابوت میں ڈالا ہے مجھے
تو کس عالم بے حال میں لا پھینکا ہے
ایسے محبس میں تو بینائی چلی جاتی ہے
خود کے زور اندھیروں کی طرح
دور تک پھیلی ہوئی خاموشی
میری کمزور وریدوں کے بدن چھیلتی ہے
ہم کسی عمل مکافات کے ٹھکرائی ہوئی جاں کی طرح
ہانپتے کانپتے پژمردہ پڑے ہیں گویا
اتنی افسردہ فضا میں کوئی کیا بات کرے
لفظ حلقوم میں کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں
اور اگر بولیں تو آ لگتی ہے اس زور سے
آواز پلٹ کر دل پر
جس طرح تیز ہواؤں کے تھپیڑے کہیں دریاؤں میں
گردش خون ٹھہرتی نظر آتی ہے پریشانوں کو
ہم تو قبروں کی تسلی سے بھی نا واقف ہیں
ورنہ کچھ دیر بہل ہی جاتے
شائیں شائیں کسی احساس کی بے چینی سے مترشح ہے
آنکھ زخمی ہو تو چبھتا ہے اجالا بھی بہت
روح پر بوجھ ہے سانسوں کا تلاطم بھی کہیں
درد نے ڈیرا جمایا ہے درونِ اعصاب
آسمانوں سے اتارا ہے ہمیں
اور یہ کس عیب کے پاتال میں لا پھینکا ہے
نیند کے جال میں لا پھینکا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *