برزخ

برزخ
بے سروپا آرزوؤں کے دھڑوں کا بوجھ
کر دیتا ہے پل بھر میں ضعیف
ورنہ کوئی ضعف انساں کو جھکا سکتا نہیں
اپنے ہاتھوں قتل ہو ہو کر
زمینیں داغ کر ڈالی ہیں ہم نے
اور جڑوں سے کاٹ ڈالے ہیں شجر
اپنی خاموشی کے گنبد میں کسی کی چاپ ابھری
ہم نے اپنے بازوؤں سے سر اٹھائے
اور شرمندہ ہوئے
ہر زمیں پر
ہر شجر پر
کوئی بھی رہتا نہیں اپنے سوا
خود ہی اپنے گنبدوں میں دوڑتے پھرتے ہیں آنکھوں کے بغیر
سر کہیں ٹکرا گیا تو مڑ گئے اور
جم گیا ہے اب تو جوتوں میں لہو، پر
دوڑتے پھرتے ہیں پھر بھی اپنی آوازوں میں ہم
اپنے اپنے بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے
کسی سے بول بھی سکتے نہیں ہیں
اک ذرا رک کر کسی سے بول لیں، ہنس لیں اگر
ہو نہ جائیں پھر پلٹ کر سنگ زادوں سے رہا
بے سروپا آرزوؤں کے دھڑوں کا بوجھ کر دیتا ہے
پل بھر میں ضعیف
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *