تیری طرف سفر کا اشارہ نہیں ملا

تیری طرف سفر کا اشارہ نہیں ملا
مجھ کو سمندروں میں ستارہ نہیں ملا
تم نے ہمیشہ غم کی پنہ میں رکھا مجھے
کیسے کہوں کہ مجھ کو سہارا نہیں ملا
دل تھا کہ جانے کون سے صحرا نکل گیا
سینے میں کوئی درد کا مارا نہیں ملا
کوئی نہ کوئی دکھ تو رہا ہے ہمارے ساتھ
کشتی ملی توہم کو کنارہ نہیں ملا
اک بار وہ کسی کی محبت پہ ہنس دیا
پھر اعتماد اس کو ہمارا نہیں ملا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *