میر تقی میر
ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا
ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا پر اتنا بھی ظالم نہ رسوا ہوا تھا خزاں التفات اس پہ کرتی بجا تھی یہ غنچہ چمن…
تجھ سے ہر آن مرے پاس کا آنا ہی گیا
تجھ سے ہر آن مرے پاس کا آنا ہی گیا کیا گلہ کیجے غرض اب وہ زمانہ ہی گیا چشم بن اشک ہوئی یا نہ…
تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا میر تقی میر
تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا بے ہوش مئے عشق ہوں کیا میرا بھروسا…
پہلو سے اٹھ گیا ہے وہ نازنیں ہمارا
پہلو سے اٹھ گیا ہے وہ نازنیں ہمارا جز درد اب نہیں ہے پہلو نشیں ہمارا ہوں کیوں نہ سبز اپنے حرف غزل کہ ہے…
پڑتی ہے آنکھ ہر دم جا کر صفائے تن پر
پڑتی ہے آنکھ ہر دم جا کر صفائے تن پر سو جی گئے تھے صدقے اس شوخ کے بدن پر نام خدا نکالے کیا پاؤں…
بیتابی جو دل ہر گھڑی اظہار کرے ہے
بیتابی جو دل ہر گھڑی اظہار کرے ہے اب دیکھوں مجھے کس کا گرفتار کرے ہے کچھ میں بھی عجب جنس ہوں بازار جہاں میں…
بولا جو موپریشاں آ نکلے میرؔ صاحب
بولا جو موپریشاں آ نکلے میرؔ صاحب آنا ہوا کہاں سے کہیے فقیر صاحب ہر لحظہ اک شرارت ہر دم ہے یک اشارت اس عمر…
بہار آئی نکالو مت مجھے اب کے گلستاں سے
بہار آئی نکالو مت مجھے اب کے گلستاں سے مرا دامن بنے تو باندھ دو گل کے گریباں سے نہ ٹک واشد ہوئی دل کو…
بسکہ دیوانگی حال میں چالاک ہوئے
بسکہ دیوانگی حال میں چالاک ہوئے سو گریبان مرے ہاتھ سے یاں چاک ہوئے سر رگڑ پاؤں پہ قاتل کے کٹائی گردن اپنے ذمے سے…
بخت سیہ کی نقل کریں کس سے چال ہم
بخت سیہ کی نقل کریں کس سے چال ہم مہندی لگی قدم سے ہوئے پائمال ہم کیونکر نہ اس چمن میں ہوں اتنے نڈھال ہم…
بات ہماری یاد رہے جی بھولا بھولا جاتا ہے
بات ہماری یاد رہے جی بھولا بھولا جاتا ہے وحشت پر جب آتا ہے تو جیسے بگولا جاتا ہے تھوڑے سے پانی میں میں نے…
آیا ہے ابر جب کا قبلے سے تیرا تیرا
آیا ہے ابر جب کا قبلے سے تیرا تیرا مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت ہی خیرا خجلت سے ان لبوں کے پانی ہو…
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گذار
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گذار کہیو ہم صحرا نوردوں کا تمامی حال زار خاک دہلی سے جدا ہم کو کیا…
آہ میری زبان پر آئی
آہ میری زبان پر آئی یہ بلا آسمان پر آئی عالم جاں سے تو نہیں آیا ایک آفت جہان پر آئی پیری آفت ہے پھر…
آنکھوں سے دل تلک ہیں چنے خوان آرزو
آنکھوں سے دل تلک ہیں چنے خوان آرزو نومیدیاں ہیں کتنی ہی مہمان آرزو یک چشم اس طرف بھی تو کافر کہ تو ہی ہے…
ان دلبروں سے رابطہ کرنا ہے کام کیا
ان دلبروں سے رابطہ کرنا ہے کام کیا کر اک سلام پوچھنا صاحب کا نام کیا حیرت ہے کھولیں چشم تماشا کہاں کہاں حسن و…
اگرچہ اب کے ہم اے ابر خشک مژگاں ہیں
اگرچہ اب کے ہم اے ابر خشک مژگاں ہیں پہ جوش دل میں کبھو آ گیا تو طوفاں ہیں صنم پرستی میں اے راہباں نہ…
اشک کے جوش سے ہوں شام و سحر پانی میں
اشک کے جوش سے ہوں شام و سحر پانی میں جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں شب نہاتا تھا جو وہ رشک…
اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں
اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں تا نظر کام کرے رو بقفا جاتے ہیں متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتش…
اس ستم دیدہ کی صحبت سے جگر لوہو ہے
اس ستم دیدہ کی صحبت سے جگر لوہو ہے آب ہو جائے کہ یہ دل خلۂ پہلو ہے خون ہوتا نظر آتا ہے کسی کا…
آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں برق کم حوصلہ ہے ہم بھی تو دلک بے قرار رکھتے ہیں غیر…
آج ہمیں بیتابی سی ہے صبر کی دل سے رخصت تھی
آج ہمیں بیتابی سی ہے صبر کی دل سے رخصت تھی چاروں اور نگہ کرنے میں عالم عالم حسرت تھی کس محنت سے محبت کی…
آتی ہے خون کی بو دوستی یار کے بیچ
آتی ہے خون کی بو دوستی یار کے بیچ جی لیے ان نے ہزاروں کے یوں ہی پیار کے بیچ حیف وہ کشتہ کہ سو…
اب یاں سے ہم اٹھ جائیں گے خلق خدا ملک خدا
اب یاں سے ہم اٹھ جائیں گے خلق خدا ملک خدا ہرگز نہ ایدھر آئیں گے خلق خدا ملک خدا مطلب اگر یاں گم ہوا…
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے زنہار اگر خستہ دلاں بے ستوں…
یہی عشق ہے جی کھپا جانتا ہے
یہی عشق ہے جی کھپا جانتا ہے کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے بدی میں بھی کچھ خوبی ہووے گی تب تو برا…
یاں ہم برائے بیت جو بے خانماں رہے
یاں ہم برائے بیت جو بے خانماں رہے سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے تھا ملک جن کے زیر نگیں صاف مٹ گئے…
یار نے ہم سے بے ادائی کی
یار نے ہم سے بے ادائی کی وصل کی رات میں لڑائی کی بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ اب توقع نہیں رہائی…
وے دن اب سالتے ہیں جن میں پھرے یار کے ساتھ
وے دن اب سالتے ہیں جن میں پھرے یار کے ساتھ لطف سے حرف و سخن تھے نگہ اک پیار کے ساتھ رو بہ پس…
وہ جو گلشن میں جلوہ ناک ہوا
وہ جو گلشن میں جلوہ ناک ہوا پھول غیرت سے جل کے خاک ہوا اس کے دامن تلک نہ پہنچا ہاتھ تھا سر دست جیب…
وحشت ہے ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
وحشت ہے ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک مرتے ہی سنا ان کو…
ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ
ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ دیکھے ادھر تو مجھ سے نہ…
ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا
ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا آشنا رہ برسوں جو اک دم میں ہو ناآشنا قدر جانو کچھ ہماری ورنہ پچھتاؤ گے…
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے میں نے اس قطعۂ صناع سے سر…
ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ
ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ تو بھی ہم غافلوں نے آ کے کیا کیا کیا کچھ دل جگر جان یہ…
ہم تم سے چشم رکھتے تھے دلداریاں بہت
ہم تم سے چشم رکھتے تھے دلداریاں بہت سو التفات کم ہے دل آزاریاں بہت دیکھیں تو کیا دکھائے یہ افراط اشتیاق لگتی ہیں تیری…
ہر صبح شام تو پئے ایذائے میرؔ ہو
ہر صبح شام تو پئے ایذائے میرؔ ہو ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو…
ہجر تا چند ہم اب وصل طلب کرتے ہیں
ہجر تا چند ہم اب وصل طلب کرتے ہیں لگ گیا ڈھب تو اسی شوخ سے ڈھب کرتے ہیں روز اک ظلم نیا کرتے ہیں…
نہیں ایسا کوئی میرا جو ماتم دار ہوئے گا
نہیں ایسا کوئی میرا جو ماتم دار ہوئے گا مگر اک غم ترا اے شوخ بے کس ہوکے روئے گا اگر اگتے رہے اے ناامیدی…
نہ تنہا داغ نو سینے پہ میرے اک چمن نکلے
نہ تنہا داغ نو سینے پہ میرے اک چمن نکلے ہر اک لخت جگر کے ساتھ سو زخم کہن نکلے گماں کب تھا یہ پروانے…
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو پوچھتے کیا ہو مرے دل کا تم احوال…
ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا
ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا دل جمع تھا جو غنچہ کے رنگوں…
میں آگے نہ تھا دیدۂ پر آب سے واقف
میں آگے نہ تھا دیدۂ پر آب سے واقف پلکیں نہ ہوئی تھیں مری خوناب سے واقف پتھر تو بہت لڑکوں کے کھائے ہیں ولیکن…
موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو
موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو یعنی سایۂ سرو و گل میں اب مجھ کو زنجیر کرو پیش سعایت کیا جائے ہے…
ملنے کے دن جب یاد آتے ہیں سدھ بدھ بھولے جاتے ہیں
ملنے کے دن جب یاد آتے ہیں سدھ بدھ بھولے جاتے ہیں بے خود ہو جاتے ہیں ہم تو دیر بخود پھر آتے ہیں
مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میرؔ کی شب کو
مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میرؔ کی شب کو مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو پھرتے ہیں چنانچہ لیے خدام سلاتے…
مرے اس رک کے مر جانے سے وہ غافل ہے کیا جانے
مرے اس رک کے مر جانے سے وہ غافل ہے کیا جانے گذرنا جان سے آساں بہت مشکل ہے کیا جانے کوئی سر سنگ سے…