ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ

ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ
کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ
دیکھے ادھر تو مجھ سے نہ یوں آنکھ وہ چھپائے
ظاہر ہے میرے منھ سے مرے مدعا کا رنگ
کس بے گنہ کے خوں میں ترا پڑ گیا ہے پاؤں
ہوتا نہیں ہے سرخ تو ایسا حنا کا رنگ
بے گہ شکستہ رنگی خورشید کیا عجب
ہوتا ہے زرد بیشتر اہل فنا کا رنگ
گل پیرہن نہ چاک کریں کیونکے رشک سے
کس مرتبے میں شوخ ہے اس کی قبا کا رنگ
رہتا تھا ابتدائے محبت میں منھ سفید
اب زرد سب ہوا ہوں یہ ہے انتہا کا رنگ
داروئے لعل گوں نہ پیو میرزا ہو تم
گرمی پہ ہے دلیل بہت اس دوا کا رنگ
خوبی ہے اس کی حیّزِ تحریر سے بروں
کیا اس کا طور حسن لکھوں کیا ادا کا رنگ
پوچھیں ہیں وجہ گریۂ خونیں جو مجھ سے لوگ
کیا دیکھتے نہیں ہیں سب اس بے وفا کا رنگ
مقدور تک نہ گذرے مرے خوں سے یار میرؔ
غیروں سے کیا گلہ ہے یہ ہے آشنا کا رنگ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *