پڑتی ہے آنکھ ہر دم جا کر صفائے تن پر

پڑتی ہے آنکھ ہر دم جا کر صفائے تن پر
سو جی گئے تھے صدقے اس شوخ کے بدن پر
نام خدا نکالے کیا پاؤں رفتہ رفتہ
تلواریں چلتیاں ہیں اس کے تو اب چلن پر
تو بھی تو ایک دن چل گلشن میں ساتھ میرے
کرتی ہے کیا تبختر بلبل گل چمن پر
دل جو بجا نہیں ہے وحشی سا میں پھروں ہوں
تم جائیو نہ ہرگز میرے دوانے پن پر
درکار عاشقوں کو کیا ہے جو اب نامہ
یک نام یار بس ہے لکھنا مرے کفن پر
تب ہی بھلے تھے جب تک حرف آشنا نہ تھے تم
لینے لگے لڑائی اب تو سخن سخن پر
گرد رخ اس کے پیدا خط کا غبار یوں ہے
گرد اک تنک سی بیٹھے جس رنگ یاسمن پر
کس طرح میرؔ جی کا ہم توبہ کرنا مانیں
کل تک بھی داغ مے تھے سب ان کے پیرہن پر
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *