میر تقی میر
الٰہی کہاں منھ چھپایا ہے تو نے
الٰہی کہاں منھ چھپایا ہے تو نے ہمیں کھو دیا ہے تری جستجو نے جو خواہش نہ ہوتی تو کاہش نہ ہوتی ہمیں جی سے…
اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام
اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام گئے گذرے خضر علیہ السلام دہن یار کا دیکھ چپ لگ گئی سخن یاں ہوا ختم حاصل…
اسیر کر کے نہ لی تو نے تو خبر صیاد
اسیر کر کے نہ لی تو نے تو خبر صیاد اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد پھریں گے لوٹتے صحن چمن میں باؤ کے ساتھ…
اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا
اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا کر ترک گرچہ بیٹھے ہیں…
اس تک کوشش سے بھی نہ پہنچے جان سے آخر سارے گئے
اس تک کوشش سے بھی نہ پہنچے جان سے آخر سارے گئے عاشق اس کی قامت کے بالا بالا مارے گئے اس کے روئے خوئے…
ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے مصائب اور تھے پر دل کا جانا عجب اک سانحہ…
آج ہمارا دل تڑپے ہے کوئی ادھر سے آوے گا
آج ہمارا دل تڑپے ہے کوئی ادھر سے آوے گا یا کہ نوشتہ ان ہاتھوں کا قاصد ہم تک لاوے گا ہم نہیں لکھتے اس…
اترا تھا غریبانہ کنارے آکر
اترا تھا غریبانہ کنارے آکر لب خشک موا سو نورچشم حیدر تر حلق دم آب سے اس کا نہ ہوا اے آب فرات خاک تیرے…
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پر آب روز و شب
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پر آب روز و شب ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب اک وقت رونے کا تھا…
اب ظلم ہے اس خاطر تا غیر بھلا مانے
اب ظلم ہے اس خاطر تا غیر بھلا مانے پس ہم نہ برا مانیں تو کون برا مانے سرمایۂ صد آفت دیدار کی خواہش ہے…
یہ رفتگی بھی ہوتی ہے جی ہی چلا گیا
یہ رفتگی بھی ہوتی ہے جی ہی چلا گیا کل حال میرؔ دیکھ کے غش مجھ کو آ گیا کیا کہیے ایک عمر میں وے…
یاں اپنی آنکھیں پھر گئیں پر وہ نہ آ پھرا
یاں اپنی آنکھیں پھر گئیں پر وہ نہ آ پھرا دیکھا نہ بدگمان ہمارا بھلا پھرا آیا نہ پھر وہ آئینہ رو ٹک نظر مجھے…
یار عجب طرح نگہ کر گیا
یار عجب طرح نگہ کر گیا دیکھنا وہ دل میں جگہ کر گیا تنگ قبائی کا سماں یار کی پیرہن غنچہ کو تہ کر گیا…
وہی شورش موئے پر بھی ہے اب تک ساتھ یاں میرے
وہی شورش موئے پر بھی ہے اب تک ساتھ یاں میرے ہما کے آشیانے میں جلیں ہیں استخواں میرے عزیزاں غم میں اپنے یوسفؑ گم…
وہ جو کشش تھی اس کی طرف سے کہاں ہے اب
وہ جو کشش تھی اس کی طرف سے کہاں ہے اب تیر و کماں ہے ہاتھ میں سینہ نشاں ہے اب اتنا بھی منھ چھپانا…
واجب کا ہو نہ ممکن مصدر صفت ثنا کا
واجب کا ہو نہ ممکن مصدر صفت ثنا کا قدرت سے اس کی لب پر نام آوے ہے خدا کا سب روم روم تن میں…
ہے عشق کا فسانہ میرا نہ یاں زباں زد
ہے عشق کا فسانہ میرا نہ یاں زباں زد ہر شہر میں ہوئی ہے یہ داستاں زباں زد حسرت سے حسن گل کی چپکا ہوا…
ہوں رہگذر میں تیرے ہر نقش پا ہے شاہد
ہوں رہگذر میں تیرے ہر نقش پا ہے شاہد اڑتی ہے خاک میری باد صبا ہے شاہد طوف حرم میں بھی میں بھولا نہ تجھ…
ہو بلبل گلگشت کہ اک دن ہے خزاں کا
ہو بلبل گلگشت کہ اک دن ہے خزاں کا اڑتا ہے ابھی رنگ گل باغ جہاں کا ہے مجھ کو یقیں تجھ میں وفا ایسی…
ہم نہ کہتے تھے رہے گا ہم میں کیا یاں سے گئے
ہم نہ کہتے تھے رہے گا ہم میں کیا یاں سے گئے سو ہی بات آئی اٹھے اس پاس سے جاں سے گئے کیا بخود…
ہم سے تو بتوں کی وہ حیا کی باتیں
ہم سے تو بتوں کی وہ حیا کی باتیں وہ طرز کلام اس ادا کی باتیں دیکھیں قرآں میں فال غیروں کے لیے کیا ان…
ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر
ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر دستۂ داغ و فوج غم لے کر دست کش نالہ پیش رو گریہ آہ چلتی ہے یاں…
ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا
ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا بکھری ہے زلف اس رخ عالم فروز…
ہاتھ سے تیرے اگر میں ناتواں مارا گیا
ہاتھ سے تیرے اگر میں ناتواں مارا گیا سب کہیں گے یہ کہ کیا اک نیم جاں مارا گیا اک نگہ سے بیش کچھ نقصاں…
نہ نکلا دوسرا ویسا جہاں میں
نہ نکلا دوسرا ویسا جہاں میں وہی اک جنس ہے اس کارواں میں کیا منھ بند سب کا بات کہتے بلا کچھ سحر ہے اس…
نہ ٹک واشد ہوئی جب سے لگا دل
نہ ٹک واشد ہوئی جب سے لگا دل الٰہی غنچہ ہے پژمردہ یا دل نہ اس سے یاں تئیں آیا گیا حیف رہے ہم جب…
نظر میں طور رکھ اس کم نما کا
نظر میں طور رکھ اس کم نما کا بھروسا کیا ہے عمر بے وفا کا گلوں کے پیرہن ہیں چاک سارے کھلا تھا کیا کہیں…
نالہ جب گرم کار ہوتا ہے
نالہ جب گرم کار ہوتا ہے دل کلیجے کے پار ہوتا ہے مار رہتا ہے اس کو آخرکار عشق کو جس سے پیار ہوتا ہے…
میں کیا کہوں جگر میں لہو میرے کم ہے کچھ
میں کیا کہوں جگر میں لہو میرے کم ہے کچھ کچھ تو الم ہے دل کی جگہ اور غم ہے کچھ پوشیدہ تو نہیں ہے…
میری پرسش پہ تری طبع اگر آوے گی
میری پرسش پہ تری طبع اگر آوے گی صورت حال تجھے آپھی نظر آوے گی محو اس کا نہیں ایسا کہ جو چیتے گا شتاب…
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بیتاب…
ملنا دلخواہ اب خیال اپنا ہے
ملنا دلخواہ اب خیال اپنا ہے جی تن میں رہا ہے سو وبال اپنا ہے آزار بہت کھینچے ہیں اس بن دل نے ہجراں ہی…
مرتے ہیں ہم تو اس صنم خود نما کے ساتھ
مرتے ہیں ہم تو اس صنم خود نما کے ساتھ جیتے ہیں وے ہی لوگ جو تھے کچھ خدا کے ساتھ دیکھیں تو کار بستہ…
مدت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی
مدت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شب وصال…
مجھ کو مارا بھلا کیا تو نیں
مجھ کو مارا بھلا کیا تو نیں پر وفا کا برا کیا تو نیں حسرتیں اس کی سر پٹکتی ہیں مرگ فرہاد کیا کیا تو…
مت آنکھ ہمیں دیکھ کے یوں مار دیا کر
مت آنکھ ہمیں دیکھ کے یوں مار دیا کر غمزے ہیں بلا ان کو نہ سنکار دیا کر آئینے کی مشہور پریشاں نظری ہے تو…
لگوائے پتھرے اور برا بھی کہا کیے
لگوائے پتھرے اور برا بھی کہا کیے تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے کھینچا تھا آہ شعلہ فشاں نے جگر سے سر برسوں…
لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے نکلے نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے…
گو کہ بت خانے جا رہا ہوں میں
گو کہ بت خانے جا رہا ہوں میں بہ خدا با خدا رہا ہوں میں سب گئے دل دماغ تاب و تواں میں رہا ہوں…
گل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے
گل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے گلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے میں بے دماغ کر کے تغافل چلا گیا وہ…
گرم مجھ سوختہ کے پاس سے جانا کیا تھا
گرم مجھ سوختہ کے پاس سے جانا کیا تھا آگ لینے مگر آئے تھے یہ آنا کیا تھا برسوں یک بوسۂ لب مانگتے جاتے ہیں…
گر بادیے میں تجھ کو صبا لے کے جائے شوق
گر بادیے میں تجھ کو صبا لے کے جائے شوق مجنوں کو میری اور سے کہیو دعائے شوق وصل و جدائی سے ہے مبرا وہ…
کیسی سعی و کشش کوشش سے کعبے گئے بت خانے سے
کیسی سعی و کشش کوشش سے کعبے گئے بت خانے سے اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے دامن پر…
کیا میرؔ کا مذکور کریں سب ہے جہل
کیا میرؔ کا مذکور کریں سب ہے جہل پایا ہم نے اسے نہایت ہی سہل ایسوں سے نہیں مزاج اپنا مانوس وحشی بے طور بد…
کیا کیا جھمک گئے ہیں رخسار یار دونوں
کیا کیا جھمک گئے ہیں رخسار یار دونوں رہ رہ گئے مہ و خور آئینہ وار دونوں تصویر قیس و لیلیٰ ٹک ہاتھ لے کے…
کیا کہیے اپنے عہد میں جتنے امیر تھے
کیا کہیے اپنے عہد میں جتنے امیر تھے ٹکڑے پہ جان دیتے تھے سارے فقیر تھے دل میں گرہ ہوس رہی پرواز باغ کی موسم…
کیا کروں میں صبر کم کو اور رنج بیش کو
کیا کروں میں صبر کم کو اور رنج بیش کو زہر دیویں کاشکے احباب اس درویش کو کھول آنکھیں صبح سے آگے کہ شیر اللہ…
کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنا میر تقی میر
کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنا یا تو بیگانے ہی رہیے ہو جیے یا آشنا پائمال صد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیب…
کیا جانیں گے کہ ہم بھی عاشق ہوئے کسو پر
کیا جانیں گے کہ ہم بھی عاشق ہوئے کسو پر غصے سے تیغ اکثر اپنے رہی گلو پر ہر کوئی چاہتا ہے سرمہ کرے نظر…