بیتابی جو دل ہر گھڑی اظہار کرے ہے

بیتابی جو دل ہر گھڑی اظہار کرے ہے
اب دیکھوں مجھے کس کا گرفتار کرے ہے
کچھ میں بھی عجب جنس ہوں بازار جہاں میں
سو ناز مجھے لیتے خریدار کرے ہے
ہے اشک سے بلبل کے بھرا چقروں میں پانی
گل باغ سے کیا رخت سفر بار کرے ہے
اس چاہ نے دل ہی کی تو بیمار کیے ہیں
یہ دوستی ہی ہے جو گرفتار کرے ہے
آگے تو جو کچھ ہم نے کہا مان لیا اب
ایک ایک سخن پر بھی وہ تکرار کرے ہے
زنہار نہ جا پرورش دور زماں پر
مرنے کے لیے لوگوں کو تیار کرے ہے
کیا عشق میں ہم اس کے ہوئے خاک برابر
کب اپنے تئیں یوں کوئی ہموار کرے ہے
تصویر سے دروازے پہ ہم اس کے کھڑے ہیں
انسان کو حیرانی بھی دیوار کرے ہے
کیوں کر نہ ہو تم میرؔ کے آزار کے درپے
یہ جرم ہے اس کا کہ تمھیں پیار کرے ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *