ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو
پوچھتے کیا ہو مرے دل کا تم احوال کہ ہے
جیسے بیمار اجل روز بتر مت پوچھو
مرنے میں بند زباں ہونا اشارت ہے ندیم
یعنی ہے دور کا درپیش سفر مت پوچھو
کیا پھرے وہ وطن آوارہ گیا اب سو گیا
دل گم کردہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو
لذت زہر غم فرقت دلداراں سے
ہووے منھ میں جنھوں کے شہد و شکر مت پوچھو
دل خراشی و جگر چاکی و سینہ کاوی
اپنے ناحق میں ہیں سب اور ہنر مت پوچھو
جوں توں کر حال دل اک بار تو میں عرض کیا
میرؔ صاحب جی بس اب بار دگر مت پوچھو