میر تقی میر
تیرے ہوتے شام کو گر بزم میں آ جائے شمع
تیرے ہوتے شام کو گر بزم میں آ جائے شمع ہو خجل ایسی کہ منھ اپنا نہ پھر دکھلائے شمع کیا جلے جاتے ہیں تجھ…
تھا زعفراں پہ ہنسنے کو دل جس کی گرد کا
تھا زعفراں پہ ہنسنے کو دل جس کی گرد کا مشتاق منھ مرا ہے اسی رنگ زرد کا کیا ڈر اسے ہے گرمی خورشید حشر…
تسبیح کو مدتوں سنبھالا ہم نے
تسبیح کو مدتوں سنبھالا ہم نے خرقہ برسوں گلے میں ڈالا ہم نے اب آخر عمر میرؔ مے کی خاطر سجادہ گرو رکھنے نکالا ہم…
تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں
تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں ولے کم ہیں بہت وے لوگ جن کو یار کہتے ہیں جہاں کے مصطبے…
تاچند تلف میرؔ حیا سے ہوگا
تاچند تلف میرؔ حیا سے ہوگا شائستۂ صدستم وفا سے ہوگا کر ترک ملاقات بتاں کعبے چل ان سے ہوگا سو اب خدا سے ہوگا
پیدا نہیں جہاں میں قید جہاں سے رستہ
پیدا نہیں جہاں میں قید جہاں سے رستہ مانند برق ہیں یاں وے لوگ جستہ جستہ ظالم بھلی نہیں ہے برہم زنی مژگاں مر جائے…
پند گو مشفق عبث میرا نصیحت گر ہوا
پند گو مشفق عبث میرا نصیحت گر ہوا سختیاں جو میں بہت کھینچیں سو دل پتھر ہوا گاڑ کر مٹی میں روئے عجز کیا ہم…
بیماری دلی سے زار و نزار ہیں ہم
بیماری دلی سے زار و نزار ہیں ہم اک مشت استخواں ہیں پر اپنے بار ہیں ہم مارا تڑپتے چھوڑا فتراک سے نہ باندھا بے…
بے روئے و زلف یار ہے رونے سے کام یاں
بے روئے و زلف یار ہے رونے سے کام یاں دامن ہے منھ پہ ابر نمط صبح و شام یاں آوازہ ہی جہاں میں ہمارا…
بہت مدت گئی ہے اب ٹک آ مل
بہت مدت گئی ہے اب ٹک آ مل کہاں تک خاک میں میں تو گیا مل ٹک اس بے رنگ کے نیرنگ تو دیکھ ہوا…
بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی
بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں…
برسوں میں کبھو ایدھر تم ناز سے آتے ہو
برسوں میں کبھو ایدھر تم ناز سے آتے ہو پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو آتے ہو کبھو یاں تو ہم لطف…
بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں
بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں عشق میں ایذائیں سب سے پائیاں رہ گئے آنسو تو آنکھیں آئیاں ظل حق ہم…
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر پھولوں سے اٹھ نگاہیں مکھڑے پہ اس…
ایسا ہے ماہ گو کہ وہ سب نور کیوں نہ ہو
ایسا ہے ماہ گو کہ وہ سب نور کیوں نہ ہو ویسا ہے پھول فرض کیا حور کیوں نہ ہو کھویا ہمارے ہاتھ سے آئینے…
اے گل نو دمیدہ کے مانند
اے گل نو دمیدہ کے مانند ہے تو کس آفریدہ کے مانند ہم امید وفا پہ تیری ہوئے غنچۂ دیر چیدہ کے مانند خاک کو…
آوے کہنے میں رہا ہو غم سے گر احوال کچھ
آوے کہنے میں رہا ہو غم سے گر احوال کچھ جاں بہ لب رہتے ہیں پر کہتے نہیں ہیں حال کچھ بے زری سے داغ…
آنکھیں لڑا لڑا کر کب تک لگا رکھیں گے
آنکھیں لڑا لڑا کر کب تک لگا رکھیں گے اس پردے ہی میں خوباں ہم کو سلا رکھیں گے فکر دہن میں اس کی کچھ…
آگے جب اس آتشیں رخسار کے آتی ہے شمع
آگے جب اس آتشیں رخسار کے آتی ہے شمع پانی پانی شرم مفرط سے ہوئی جاتی ہے شمع
افسانہ خواں کا لڑکا کیا کہیے دیدنی ہے
افسانہ خواں کا لڑکا کیا کہیے دیدنی ہے قصہ ہمارا اس کا یارو شنیدنی ہے اپنا تو دست کوتہ زہ تک بھی ٹک نہ پہنچا…
اس کی طرز نگاہ مت پوچھو
اس کی طرز نگاہ مت پوچھو جی ہی جانے ہے آہ مت پوچھو کہیں پہنچو گے بے رہی میں بھی گمرہاں یوں یہ راہ مت…
اس شوخ سے سنا نہیں نام صبا ہنوز
اس شوخ سے سنا نہیں نام صبا ہنوز غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز عاشق کے اس کو گریۂ خونیں کا درد…
اس باغ بے ثبات میں کیا دل صبا لگے
اس باغ بے ثبات میں کیا دل صبا لگے کیا کیا نہال دیکھتے یاں پاؤں آ لگے حرص و ہوس سے باز رہے دل تو…
اچنبھا ہے اگر چپکا رہوں مجھ پر عتاب آوے
اچنبھا ہے اگر چپکا رہوں مجھ پر عتاب آوے وگر قصہ کہوں اپنا تو سنتے اس کو خواب آوے بھرا ہے دل مرا جام لبالب…
اثر ہوتا ہماری گر دعا میں
اثر ہوتا ہماری گر دعا میں لگ اٹھتی آگ سب جوِّ سما میں نہ اٹکا ہائے ٹک یوسفؑ کا مالک وگرنہ مصر سب ملتا بہا…
اپنا سر شوریدہ تو وقف خم چوگان ہے
اپنا سر شوریدہ تو وقف خم چوگان ہے آ بوالہوس گر ذوق ہے یہ گو ہے یہ میدان ہے عالم مری تقلید سے خواہش تری…
اب کے ہزار رنگ گلستاں میں آئے گل
اب کے ہزار رنگ گلستاں میں آئے گل پر اس بغیر اپنے تو جی کو نہ بھائے گل بلبل کو ناز کیوں نہ خیابان گل…
یہ میرؔ ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا
یہ میرؔ ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا جادو کی پڑی پرچۂ ابیات تھا اس کا منھ…
یکسو کشادہ روئی پرچیں نہیں جبیں بھی
یکسو کشادہ روئی پرچیں نہیں جبیں بھی ہم چھوڑی مہر اس کی کاش اس کو ہووے کیں بھی آنسو تو تیرے دامن پونچھے ہے وقت…
یارب اس کا ستم سہا بھی جائے
یارب اس کا ستم سہا بھی جائے پنجہ خورشید کا گہا بھی جائے دیکھ رہیے خرام ناز اس کا پر کسو پا سے گر رہا…
ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو
ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو چالیں تمام بے ڈھب باتیں…
وہ رابطہ نہیں وہ محبت نہیں رہی
وہ رابطہ نہیں وہ محبت نہیں رہی اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی دیکھا تو مثل اشک نظر سے گرا دیا…
وعدے ہر روز رہے اور تم آتے ہی رہے
وعدے ہر روز رہے اور تم آتے ہی رہے ہم کو دیکھو کہ لگے چلنے تو جاتے ہی رہے
ہے زباں زد جو سکندر ہو چکا لشکر سمیت
ہے زباں زد جو سکندر ہو چکا لشکر سمیت سر بھی اس کا کھپ گیا آخر کو یاں افسر سمیت چشمے آب شور کے نکلا…
ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا ہر چند شور محشر اب بھی ہے…
ہمیشہ دل میں کہتا ہوں یہاں جاؤں وہاں جاؤں
ہمیشہ دل میں کہتا ہوں یہاں جاؤں وہاں جاؤں ترے غم کو اکیلا چھوڑ کر پیارے کہاں جاؤں لگی آتی ہے واں تک تیرے دامن…
ہم مست عشق جس کے تھے وہ روٹھ کر گیا
ہم مست عشق جس کے تھے وہ روٹھ کر گیا دیکھ اس کو بے دماغ نشہ سب اتر گیا جاں بخشی اس کے ہونٹوں کی…
ہم جانتے تو عشق نہ کرتے کسو کے ساتھ
ہم جانتے تو عشق نہ کرتے کسو کے ساتھ لے جاتے دل کو خاک میں اس آرزو کے ساتھ مستی میں شیخ شہر سے صحبت…
ہر لحظہ ہے کدورت خاطر سے بار دل
ہر لحظہ ہے کدورت خاطر سے بار دل آندھی سی آوے نکلے کبھو جو غبار دل تربندی خشک بندی نمک بندی ہو چکی بے ڈول…
ہجراں میں کیا سب نے کنارہ آخر
ہجراں میں کیا سب نے کنارہ آخر اسباب گیا جینے کا سارا آخر نے تاب رہی نہ صبر و یارا آخر آخر کو ہوا کام…
نے ہم سے کچھ نہ اس ستم ایجاد سے ہوا
نے ہم سے کچھ نہ اس ستم ایجاد سے ہوا ظلم صریح عشق کی امداد سے ہوا شیریں کا حسن ایسا تھا جو خستہ جان…
نہ کیونکے شیخ توکل کو اختیار کریں
نہ کیونکے شیخ توکل کو اختیار کریں زمانہ ہووے مساعد تو روزگار کریں گیا وہ زمزمۂ صبح فصل گل بلبل دعا نہ پہنچے چمن تک…
نکلے ہے جی کا رستہ آواز کی رکن سے
نکلے ہے جی کا رستہ آواز کی رکن سے آزردہ ہو نہ بلبل جاتے ہیں ہم چمن سے جی غش کرے ہے اب تو رفتار…
نزدیک عاشقوں کے زمیں ہے قرار عشق
نزدیک عاشقوں کے زمیں ہے قرار عشق اور آسماں غبار سر رہ گذار عشق مقبول شہر ہی نہیں مجنوں ضعیف و زار ہے وحشیان دشت…
مئے گلگوں کی بو سے بسکہ میخانہ مہکتا تھا
مئے گلگوں کی بو سے بسکہ میخانہ مہکتا تھا لب ساغر پہ منھ رکھ رکھ کے ہر شیشہ بہکتا تھا جلا کیونکر نہ ہو گا…
میلان دلربا ہو کیونکر وفا کے اوپر
میلان دلربا ہو کیونکر وفا کے اوپر دیتا ہے جان عالم اس کی جفا کے اوپر کشتہ ہوں اس حیا کا کٹوائے بہتوں کے سر…
مے کشی صبح و شام کرتا ہوں
مے کشی صبح و شام کرتا ہوں فاقہ مستی مدام کرتا ہوں کوئی ناکام یوں رہے کب تک میں بھی اب ایک کام کرتا ہوں…
منصف جو تو ہے کب تئیں یہ دکھ اٹھایئے
منصف جو تو ہے کب تئیں یہ دکھ اٹھایئے کیا کیجے میری جان اگر مر نہ جایئے اظہار راز عشق کیے بن رہے نہ اشک…