تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں

تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں
ولے کم ہیں بہت وے لوگ جن کو یار کہتے ہیں
جہاں کے مصطبے میں مست طافح ہی نظر آئے
نہ تھا اس دور میں آیا جسے ہشیار کہتے ہیں
سمجھ کر ذکر کر آسودگی کا مجھ سے اے ناصح
وہ میں ہی ہوں کہ جس کو عافیت بیزار کہتے ہیں
مسافر ہووے جی اس کا خراماں دیکھ کر تجھ کو
جسے میرے وطن میں کبک خوش رفتار کہتے ہیں
معاذ اللہ دخل کفر ہو اسلام میں کیوں ہی
غلط اور پوچ نامعقول بعضے یار کہتے ہیں
علم کو کب ہے وجہ تسمیہ لازم سمجھ دیکھو
سلیمانی میں کیا زنار ہے زنار کہتے ہیں
تری آنکھوں کو آؤں دیکھنے میں تو عجب مت کر
کہ بہتر ہے عیادت اور انھیں بیمار کہتے ہیں
عجب ہوتے ہیں شاعر بھی میں اس فرقے کا عاشق ہوں
کہ بے دھڑکے بھری مجلس میں یہ اسرار کہتے ہیں
مزے ان کے اڑا لیکن نہ یہ سمجھیں تو بہتر ہے
کہ خوباں بھی بہت اپنے تئیں عیار کہتے ہیں
سگ کو میرؔ میں اس شیر حق کا ہوں کہ جس کو سب
نبیؐ کا خویش و بھائی حیدر کرار کہتے ہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *