اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی
دیکھا تو مثل اشک نظر سے گرا دیا
اب میری اس کی آنکھ میں عزت نہیں رہی
رندھنے سے جی کے کس کو رہا ہے دماغ حرف
دم لینے کی بھی ہم کو تو فرصت نہیں رہی
تھی تاب جی میں جب تئیں رنج و تعب کھنچے
وہ جسم اب نہیں ہے وہ قدرت نہیں رہی
منعم امل کا طول یہ کس جینے کے لیے
جتنی گئی اب اتنی تو مدت نہیں رہی
دیوانگی سے اپنی ہے اب ساری بات خبط
افراط اشتیاق سے وہ مت نہیں رہی
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی