اچنبھا ہے اگر چپکا رہوں مجھ پر عتاب آوے

اچنبھا ہے اگر چپکا رہوں مجھ پر عتاب آوے
وگر قصہ کہوں اپنا تو سنتے اس کو خواب آوے
بھرا ہے دل مرا جام لبالب کی طرح ساقی
گلے لگ خوب روؤں میں جو مینائے شراب آوے
بغل پروردۂ طوفاں ہوں میں یہ موج ہے میری
بیاباں میں اگر روؤں تو شہروں میں بھی آب آوے
لپیٹا ہے دل سوزاں کو اپنے میرؔ نے خط میں
الٰہی نامہ بر کو اس کے لے جانے کی تاب آوے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *