میر تقی میر
تا چند وہ ستم کرے ہم درگذر کریں
تا چند وہ ستم کرے ہم درگذر کریں اب جی میں ہے کہ شہر سے اس کے سفر کریں بے رو سے ایسی بات کے…
پھریے کب تک شہر میں اب سوئے صحرا رو کیا
پھریے کب تک شہر میں اب سوئے صحرا رو کیا کام اپنا اس جنوں میں ہم نے بھی یک سو کیا عشق نے کیا کیا…
پڑا ہے فرق خورد و خواب میں اب
پڑا ہے فرق خورد و خواب میں اب رہا ہے کیا دل بے تاب میں اب جنوں میں اب کے نے دامن ہے نے جیب…
بیکسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا
بیکسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا اک دل غمخوار رکھتے تھے سو گلشن میں رہا پنجۂ گل کی طرح دیوانگی میں ہاتھ کو گر…
بے اس کے تیرے حق میں کوئی کیا دعا کرے
بے اس کے تیرے حق میں کوئی کیا دعا کرے عاشق کہیں شتاب تو ہووے خدا کرے اے سردمہر کوئی مرے رہ تو گرم ناز…
بہار آئی کھلے گل پھول شاید باغ و صحرا میں
بہار آئی کھلے گل پھول شاید باغ و صحرا میں جھلک سی مارتی ہے کچھ سیاہی داغ سودا میں نفاق مردماں عاجز سے ہے زعم…
بس حرص و ہوا سے میرؔ اب تم بھاگو
بس حرص و ہوا سے میرؔ اب تم بھاگو غفلت کب تک کہے ہمارے لاگو چلنے سے خبر دے ہے سفیدی مو کی ہونے آئی…
بتوں کے جرم الفت پر ہمیں زجرو ملامت ہے
بتوں کے جرم الفت پر ہمیں زجرو ملامت ہے مسلماں بھی خدا لگتی نہیں کہتے قیامت ہے کھڑا ہوتا نہیں وہ رہزن دل پاس عاشق…
بات کہوں کیا چپکے چپکے دیکھو ہو آئینے کو
بات کہوں کیا چپکے چپکے دیکھو ہو آئینے کو دیکھتے ہو تو دیکھو ہمارے جلتے توے سے سینے کو کیا جانو تم قدر ہماری مہر…
ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا
ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا کاشکے آہو چشم اپنا آنکھوں کو پاؤں سے مل آتش دل کی لپٹوں کا…
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوز عشق سے اس…
اے رشک برق تجھ سے مشکل ہے کار عاشق
اے رشک برق تجھ سے مشکل ہے کار عاشق اک جھمکے میں کہاں پھر صبر و قرار عاشق خاک سیہ سے یکساں تیرے لیے ہوا…
آہ کے تیں دل حیران و خفا کو سونپا
آہ کے تیں دل حیران و خفا کو سونپا میں نے یہ غنچۂ تصویر صبا کو سونپا تیرے کوچے میں مری خاک بھی پامال ہوئی…
انکھڑیوں کو اس کی خاطر خواہ کیونکر دیکھیے
انکھڑیوں کو اس کی خاطر خواہ کیونکر دیکھیے سو طرف جب دیکھ لیجے تب ٹک اودھر دیکھیے گرچہ زردی رنگ کی بھی ہجر ہی سے…
امیروں تک رسائی ہو چکی بس
امیروں تک رسائی ہو چکی بس مری بخت آزمائی ہو چکی بس بہار اب کے بھی جو گذری قفس میں تو پھر اپنی رہائی ہو…
اگر ہنستا اسے سیرچمن میں اب کے پاؤں گا
اگر ہنستا اسے سیرچمن میں اب کے پاؤں گا تو بلبل آشیاں تیرا ہی میں پھولوں سے چھاؤں گا مجھے گل اس کے آگے خوش…
آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر
آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر کچھ ہو رہے گا عشق و ہوس میں…
اس کی دوری میں کڑھا کرتے ہیں ہم حد سے زیاد
اس کی دوری میں کڑھا کرتے ہیں ہم حد سے زیاد جی گیا آخر رہا دل کو جو غم حد سے زیاد چھاتی پھٹ جاتی…
اس رنگ سے جو زرد زبوں زار ہیں ہم لوگ
اس رنگ سے جو زرد زبوں زار ہیں ہم لوگ دل کے مرض عشق سے بیمار ہیں ہم لوگ کیا اپنے تئیں پستی بلندی سے…
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں خاک ہوئے برباد…
آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا
آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا واں کام ہی رہا تجھے یاں کام ہو چکا یا خط چلے ہی آتے تھے یا حرف…
ابر جب مجھ خاک پر سے ہو گیا
ابر جب مجھ خاک پر سے ہو گیا ایک دو دم زار باراں رو گیا کیا کہوں میں میرؔ اپنی سرگذشت ابتدا ہی قصے میں…
اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ
اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ آب اس کے پوست میں ہے جوں میوۂ رسیدہ آنکھیں ملا کبھو تو کب تک کیا…
یہی عشق ہے جی کھپا جانتا ہے
یہی عشق ہے جی کھپا جانتا ہے کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے بدی میں بھی کچھ خوبی ہووے گی تب تو برا…
یاں ہم برائے بیت جو بے خانماں رہے
یاں ہم برائے بیت جو بے خانماں رہے سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے تھا ملک جن کے زیر نگیں صاف مٹ گئے…
یار نے ہم سے بے ادائی کی
یار نے ہم سے بے ادائی کی وصل کی رات میں لڑائی کی بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ اب توقع نہیں رہائی…
وے دن اب سالتے ہیں جن میں پھرے یار کے ساتھ
وے دن اب سالتے ہیں جن میں پھرے یار کے ساتھ لطف سے حرف و سخن تھے نگہ اک پیار کے ساتھ رو بہ پس…
وہ جو گلشن میں جلوہ ناک ہوا
وہ جو گلشن میں جلوہ ناک ہوا پھول غیرت سے جل کے خاک ہوا اس کے دامن تلک نہ پہنچا ہاتھ تھا سر دست جیب…
وحشت ہے ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
وحشت ہے ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک مرتے ہی سنا ان کو…
ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ
ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ دیکھے ادھر تو مجھ سے نہ…
ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا
ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا آشنا رہ برسوں جو اک دم میں ہو ناآشنا قدر جانو کچھ ہماری ورنہ پچھتاؤ گے…
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے میں نے اس قطعۂ صناع سے سر…
ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ
ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ تو بھی ہم غافلوں نے آ کے کیا کیا کیا کچھ دل جگر جان یہ…
ہم تم سے چشم رکھتے تھے دلداریاں بہت
ہم تم سے چشم رکھتے تھے دلداریاں بہت سو التفات کم ہے دل آزاریاں بہت دیکھیں تو کیا دکھائے یہ افراط اشتیاق لگتی ہیں تیری…
ہر صبح شام تو پئے ایذائے میرؔ ہو
ہر صبح شام تو پئے ایذائے میرؔ ہو ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو…
ہجر تا چند ہم اب وصل طلب کرتے ہیں
ہجر تا چند ہم اب وصل طلب کرتے ہیں لگ گیا ڈھب تو اسی شوخ سے ڈھب کرتے ہیں روز اک ظلم نیا کرتے ہیں…
نہیں ایسا کوئی میرا جو ماتم دار ہوئے گا
نہیں ایسا کوئی میرا جو ماتم دار ہوئے گا مگر اک غم ترا اے شوخ بے کس ہوکے روئے گا اگر اگتے رہے اے ناامیدی…
نہ تنہا داغ نو سینے پہ میرے اک چمن نکلے
نہ تنہا داغ نو سینے پہ میرے اک چمن نکلے ہر اک لخت جگر کے ساتھ سو زخم کہن نکلے گماں کب تھا یہ پروانے…
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو پوچھتے کیا ہو مرے دل کا تم احوال…
ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا
ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا دل جمع تھا جو غنچہ کے رنگوں…
میرؔ کیوں رہتے ہیں اکثر ان منے
میرؔ کیوں رہتے ہیں اکثر ان منے کر نہیں بنتی کسو سے جو بنے خون ہو کر بہ گیا مدت ہوئی دل جو ڈھونڈو ہو…
موئے ہم جس کی خاطر بے وفا تھا
موئے ہم جس کی خاطر بے وفا تھا نہ جانا ان نے تو یوں بھی کہ کیا تھا معالج کی نہیں تقصیر ہرگز مرض ہی…
ملو ان دنوں ہم سے اک رات جانی
ملو ان دنوں ہم سے اک رات جانی کہاں ہم کہاں تم کہاں پھر جوانی شکایت کروں ہوں تو سونے لگے ہے مری سرگذشت اب…
مطرب سے غزل میرؔ کی کل میں نے پڑھائی
مطرب سے غزل میرؔ کی کل میں نے پڑھائی اللہ رے اثر سب کے تئیں رفتگی آئی اس مطلع جاں سوز نے آ اس کے…
مرے آگے نہ شاعر نام پاویں
مرے آگے نہ شاعر نام پاویں قیامت کو مگر عرصے میں آویں پری سمجھے تجھے وہم و گماں سے کہاں تک اور ہم اب دل…
مدت ہوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں
مدت ہوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں نامے کا اس کی مہر سے اب نام بھی نہیں ایام ہجر کریے بسر کس امید پر…
مجھے تو نور نظر نے تنک بھی تن نہ دیا
مجھے تو نور نظر نے تنک بھی تن نہ دیا بہار جاتی رہی دیکھنے چمن نہ دیا لباس دیکھ لیے میں نے تیری پوشش کے…