اگر ہنستا اسے سیرچمن میں اب کے پاؤں گا

اگر ہنستا اسے سیرچمن میں اب کے پاؤں گا
تو بلبل آشیاں تیرا ہی میں پھولوں سے چھاؤں گا
مجھے گل اس کے آگے خوش نہیں آتا کچھ اس پر بھی
جو تو آزردہ ہوتی ہے گلستاں میں نہ آؤں گا
بشارت اے صبا دیجو اسیران قفس کو بھی
تسلی کو تمھاری سر پہ رکھ دو پھول لاؤں گا
دماغ ناز برداری نہیں ہے کم دماغی سے
کہاں تک ہر گھڑی کے روٹھے کو پہروں مناؤں گا
خشونت بدسلوکی خشمگینی کس لیے اتنی
نہ منھ کو پھیریے پھر یاں نہ آؤں گا جو جاؤں گا
ابھی ہوں منتظر جاتی ہے چشم شوق ہر جانب
بلند اس تیغ کو ہونے تو دو سر بھی جھکاؤں گا
بلائیں زیر سر ہوں کاش افتادہ رہوں یوں ہی
اٹھا سر خاک سے تو میرؔ ہنگامے اٹھاؤں گا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *