میر تقی میر
چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے رنگ ہوا…
چاہت کے طرح کش ہو کچھ بھی اثر نہ دیکھا
چاہت کے طرح کش ہو کچھ بھی اثر نہ دیکھا طرحیں بدل گئیں پر ان نے ادھر نہ دیکھا خالی بدن جیوں سے یاں ہو…
جی میں ہے یاد رخ و زلف سیہ فام بہت
جی میں ہے یاد رخ و زلف سیہ فام بہت رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت دست صیاد تلک بھی نہ میں…
جور کیا کیا جفائیں کیا کیا ہیں
جور کیا کیا جفائیں کیا کیا ہیں عاشقی میں بلائیں کیا کیا ہیں خوب رو ہی فقط نہیں وہ شوخ حسن کیا کیا ادائیں کیا…
جھوٹے بھی پوچھتے نہیں ٹک حال آن کر
جھوٹے بھی پوچھتے نہیں ٹک حال آن کر انجان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو…
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے ہوتا نہیں ہے اس لب نو خط پہ…
جس جگہ دور جام ہوتا ہے
جس جگہ دور جام ہوتا ہے واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون کیسا خط و پیام ہوتا ہے…
جب سے آنکھیں لگی ہیں ہماری نیند نہیں آتی ہے رات
جب سے آنکھیں لگی ہیں ہماری نیند نہیں آتی ہے رات تکتے راہ رہے ہیں دن کو آنکھوں میں جاتی ہے رات سخت ہیں کیا…
جاناں نے ہمیں کبھو نہ جانا افسوس
جاناں نے ہمیں کبھو نہ جانا افسوس جو ہم نے کہا سو وہ نہ مانا افسوس تب آنے میں دیر کی قیامت اب سو آیا…
ٹک لطف سے ملا کر گو پھر کبھو کبھو ہو
ٹک لطف سے ملا کر گو پھر کبھو کبھو ہو سو تب تلک کہ مجھ کو ہجراں سے تیرے خو ہو کیا کیا جوان ہم…
تیرا خرام دیکھے تو جا سے نہ ہل سکے
تیرا خرام دیکھے تو جا سے نہ ہل سکے کیا جی تدرو کا جو ترے آگے چل سکے اس دل جلے کی تاب کے لانے…
تن کو جس جاگہ سے چھیڑوں ہوں وہاں ہے درد درد
تن کو جس جاگہ سے چھیڑوں ہوں وہاں ہے درد درد ہاتھ لگتے دل کے ہو جاتا ہوں کچھ میں زرد زرد اب تو وہ…
تری زلف سیہ کی یاد میں آنسو جھمکتے ہیں
تری زلف سیہ کی یاد میں آنسو جھمکتے ہیں اندھیری رات ہے برسات ہے جگنو چمکتے ہیں
تجھ رہ سے محال ہے اٹھانا مجھ کو
تجھ رہ سے محال ہے اٹھانا مجھ کو پھر جنی کہے کوئی سیانا مجھ کو سر میرا لگا ہے نقش پا سے تیرے سجدے کو…
تا چند وہ ستم کرے ہم درگذر کریں
تا چند وہ ستم کرے ہم درگذر کریں اب جی میں ہے کہ شہر سے اس کے سفر کریں بے رو سے ایسی بات کے…
پھریے کب تک شہر میں اب سوئے صحرا رو کیا
پھریے کب تک شہر میں اب سوئے صحرا رو کیا کام اپنا اس جنوں میں ہم نے بھی یک سو کیا عشق نے کیا کیا…
پڑا ہے فرق خورد و خواب میں اب
پڑا ہے فرق خورد و خواب میں اب رہا ہے کیا دل بے تاب میں اب جنوں میں اب کے نے دامن ہے نے جیب…
بیکسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا
بیکسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا اک دل غمخوار رکھتے تھے سو گلشن میں رہا پنجۂ گل کی طرح دیوانگی میں ہاتھ کو گر…
بے اس کے تیرے حق میں کوئی کیا دعا کرے
بے اس کے تیرے حق میں کوئی کیا دعا کرے عاشق کہیں شتاب تو ہووے خدا کرے اے سردمہر کوئی مرے رہ تو گرم ناز…
بہار آئی کھلے گل پھول شاید باغ و صحرا میں
بہار آئی کھلے گل پھول شاید باغ و صحرا میں جھلک سی مارتی ہے کچھ سیاہی داغ سودا میں نفاق مردماں عاجز سے ہے زعم…
بس حرص و ہوا سے میرؔ اب تم بھاگو
بس حرص و ہوا سے میرؔ اب تم بھاگو غفلت کب تک کہے ہمارے لاگو چلنے سے خبر دے ہے سفیدی مو کی ہونے آئی…
بتوں کے جرم الفت پر ہمیں زجرو ملامت ہے
بتوں کے جرم الفت پر ہمیں زجرو ملامت ہے مسلماں بھی خدا لگتی نہیں کہتے قیامت ہے کھڑا ہوتا نہیں وہ رہزن دل پاس عاشق…
بات کہوں کیا چپکے چپکے دیکھو ہو آئینے کو
بات کہوں کیا چپکے چپکے دیکھو ہو آئینے کو دیکھتے ہو تو دیکھو ہمارے جلتے توے سے سینے کو کیا جانو تم قدر ہماری مہر…
ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا
ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا کاشکے آہو چشم اپنا آنکھوں کو پاؤں سے مل آتش دل کی لپٹوں کا…
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوز عشق سے اس…
اے رشک برق تجھ سے مشکل ہے کار عاشق
اے رشک برق تجھ سے مشکل ہے کار عاشق اک جھمکے میں کہاں پھر صبر و قرار عاشق خاک سیہ سے یکساں تیرے لیے ہوا…
آہ کے تیں دل حیران و خفا کو سونپا
آہ کے تیں دل حیران و خفا کو سونپا میں نے یہ غنچۂ تصویر صبا کو سونپا تیرے کوچے میں مری خاک بھی پامال ہوئی…
انکھڑیوں کو اس کی خاطر خواہ کیونکر دیکھیے
انکھڑیوں کو اس کی خاطر خواہ کیونکر دیکھیے سو طرف جب دیکھ لیجے تب ٹک اودھر دیکھیے گرچہ زردی رنگ کی بھی ہجر ہی سے…
امیروں تک رسائی ہو چکی بس
امیروں تک رسائی ہو چکی بس مری بخت آزمائی ہو چکی بس بہار اب کے بھی جو گذری قفس میں تو پھر اپنی رہائی ہو…
اگر ہنستا اسے سیرچمن میں اب کے پاؤں گا
اگر ہنستا اسے سیرچمن میں اب کے پاؤں گا تو بلبل آشیاں تیرا ہی میں پھولوں سے چھاؤں گا مجھے گل اس کے آگے خوش…
آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر
آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر کچھ ہو رہے گا عشق و ہوس میں…
اس کی دوری میں کڑھا کرتے ہیں ہم حد سے زیاد
اس کی دوری میں کڑھا کرتے ہیں ہم حد سے زیاد جی گیا آخر رہا دل کو جو غم حد سے زیاد چھاتی پھٹ جاتی…
اس رنگ سے جو زرد زبوں زار ہیں ہم لوگ
اس رنگ سے جو زرد زبوں زار ہیں ہم لوگ دل کے مرض عشق سے بیمار ہیں ہم لوگ کیا اپنے تئیں پستی بلندی سے…
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں خاک ہوئے برباد…
آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا
آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا واں کام ہی رہا تجھے یاں کام ہو چکا یا خط چلے ہی آتے تھے یا حرف…
ابر جب مجھ خاک پر سے ہو گیا
ابر جب مجھ خاک پر سے ہو گیا ایک دو دم زار باراں رو گیا کیا کہوں میں میرؔ اپنی سرگذشت ابتدا ہی قصے میں…
اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ
اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ آب اس کے پوست میں ہے جوں میوۂ رسیدہ آنکھیں ملا کبھو تو کب تک کیا…
یہ رات ہجر کی یاں تک تو دکھ دکھاتی ہے
یہ رات ہجر کی یاں تک تو دکھ دکھاتی ہے کہ شکل صبح مری سب کو بھول جاتی ہے طپش کے دم ہی تئیں مجھ…
یک عمر دیدہ ہائے ستم دیدہ تر رہے
یک عمر دیدہ ہائے ستم دیدہ تر رہے آخر کو پھوٹ پھوٹ بہے قہر کر رہے ہم نے بھی نذر کی ہے پھریں گے چمن…
یار کا جور و ستم کام ہی کر جاتا ہے
یار کا جور و ستم کام ہی کر جاتا ہے کتنا جی عاشق بیتاب کا مر جاتا ہے جیسے گرداب ہے گردش مری ہر چار…
وے ہم ہیں جن کو کہیے آزار دیدہ مردم
وے ہم ہیں جن کو کہیے آزار دیدہ مردم الفت گزیدہ مردم کلفت کشیدہ مردم ہے حال اپنا درہم تس پر ہے عشق کا غم…
وہ دل نہیں رہا ہے تعب جو اٹھائے گا
وہ دل نہیں رہا ہے تعب جو اٹھائے گا یا لوہو اشک خونی سے منھ پر بہائے گا اب یہ نظر پڑے ہے کہ برگشتہ…
وحشت میں ہوں بلا گر وادی پر اپنی آؤں
وحشت میں ہوں بلا گر وادی پر اپنی آؤں مجنوں کی محنتیں سب میں خاک میں ملاؤں ہنس کر کبھو بلایا تو برسوں تک رلایا…
ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی
ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی ہم نے بھی طبع آزمائی کی اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے عمر نے ہم سے بے وفائی…
ہوئیں رسوائیاں جس کے لیے چھوٹا دیار اپنا
ہوئیں رسوائیاں جس کے لیے چھوٹا دیار اپنا ہوا وہ بے مروت بے وفا ہرگز نہ یار اپنا خدا جانے ہمیں اس بے خودی نے…
ہوتا نہ پائے سرو جو جوئے چمن میں آب
ہوتا نہ پائے سرو جو جوئے چمن میں آب تو کون قمریوں کے چواتا دہن میں آب اس پر لہو کے پیاسے ہیں تیرے لبوں…
ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم اب جو ہیں خاک انتہا ہے…
ہم سے دیکھا کہ محبت نے ادا کیا کیا کی
ہم سے دیکھا کہ محبت نے ادا کیا کیا کی ایک دل قطرۂ خوں تس پہ جفا کیا کیا کی کس کو لاگی کہ نہ…
ہم پہ خشم و خطاب ہے سو ہے
ہم پہ خشم و خطاب ہے سو ہے وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے گرچہ گھبرا کے لب پہ آئی ولے جان کو…