تیرا خرام دیکھے تو جا سے نہ ہل سکے

تیرا خرام دیکھے تو جا سے نہ ہل سکے
کیا جی تدرو کا جو ترے آگے چل سکے
اس دل جلے کی تاب کے لانے کو عشق ہے
فانوس کی سی شمع جو پردے میں جل سکے
کہتا ہے کون تجھ کو کہ اے سینہ رک نہ جا
اتنا تو ہو کہ آہ جگر سے نکل سکے
گر دوپہر کو اس کو نکلنے دے نازکی
حیرت سے آفتاب کی پھر دن نہ ڈھل سکے
کیا اس غریب کو ہو سرسایۂ ہما
جو اپنی بے دماغی سے مکھی نہ جھل سکے
ہے جائے حیف بزم جہاں مل لے اے پتنگ
اپنے اپر جو کوئی گھڑی ہاتھ مل سکے
ہے وہ بلائے عشق کہ آئے سو آئے ہے
کلول نہیں ہے ایسی محبت کہ ٹل سکے
کس کو ہے آرزوئے افاقت فراق میں
ایسا تو ہو کہ کوئی گھڑی جی سنبھل سکے
مت ابر چشم کم سے مری چشم تر کو دیکھ
چشمہ ہے یہ وہ جس سے کہ دریا ابل سکے
کہتا ہے وہ تو ایک کی دس میرؔ کم سخن
اس کی زباں کے عہدے سے کیونکر نکل سکے
تغئیرقافیہ سے یہ طرحی غزل کہوں
تا جس میں زور کچھ تو طبیعت کا چل سکے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *