یار کا جور و ستم کام ہی کر جاتا ہے

یار کا جور و ستم کام ہی کر جاتا ہے
کتنا جی عاشق بیتاب کا مر جاتا ہے
جیسے گرداب ہے گردش مری ہر چار طرف
شوق کیا جانے لیے مجھ کو کدھر جاتا ہے
جوشش اشک میں ٹک ٹھہرے رہو پیش نظر
اب کوئی پل میں یہ سیلاب اتر جاتا ہے
زرد رخسار پہ کیوں اشک نہ آوے گل رنگ
آگے سے آنکھوں کے وہ باغ نظر جاتا ہے
زہ گریباں کی ہے خونناب سے تر ہوتی نہیں
سارا زنجیرۂ دامن بھی تو بھر جاتا ہے
واعظ شہر تنک آب ہے مانند حباب
ٹک ہوا لگتی ہے اس کو تو اپھر جاتا ہے
کیا لکھوں بخت کی برگشتگی نالوں سے مرے
نامہ بر مجھ سے کبوتر بھی چپر جاتا ہے
آن اس دلبر شیریں کی چھری شہد کی ہے
عاشق اک آن ہی میں جی سے گذر جاتا ہے
ہر سحر پیچھے اس اوباش کے خورشید اے میرؔ
ڈھال تلوار لیے جیسے نفر جاتا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *