اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پر آب روز و شب

اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پر آب روز و شب
ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب
اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا
آئی تھی آنکھوں سے چلی سیلاب روز و شب
اس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے
رہتا تھا پاس وہ در نایاب روز و شب
قدرت تو دیکھ عشق کی مجھ سے ضعیف کو
رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب
سجدہ اس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب
رگڑا ہے سر میانۂ محراب روز و شب
اب رسم ربط اٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں
بیٹھے ہی رہتے تھے بہم احباب روز و شب
دل کس کے رو و مو سے لگایا ہے میرؔ نے
پاتے ہیں اس جوان کو بیتاب روز و شب
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *