پر وفا کا برا کیا تو نیں
حسرتیں اس کی سر پٹکتی ہیں
مرگ فرہاد کیا کیا تو نیں
اس کے جور و جفا کی کیا تقصیر
جو کیا سو وفا کیا تو نیں
یہ چمن ہے قفس سے پر اے ضعف
مجھ کو بے دست و پا کیا تو نیں
کل ہی پڑتی نہیں ہے تجھ بن آج
میرؔ کو کیا بلا کیا تو نیں
وہ جو کہتا تھا تو ہی کریو قتل
میرؔ کا سو کہا کیا تو نیں