گل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے

گل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے
گلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے
میں بے دماغ کر کے تغافل چلا گیا
وہ دل کہاں کہ ناز کسو کے اٹھائیے
صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہائے
کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اس کو پائیے
رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے
آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے
خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں خرابیاں
اپنا ہو بس تو دل نہ کسو سے لگائیے
اے ہمدم ابتدا سے ہے آدم کشی میں عشق
طبع شریف اپنی نہ ایدھر کو لائیے
اتنی بھی کیا ہے دیدہ درائی کہ غیر سے
آنکھیں لڑائیے ہمیں آنکھیں دکھائیے
مچلا ہے وہ تو دیکھ کے لیتا ہے آنکھیں موند
سوتا پڑا ہو کوئی تو اس کو جگائیے
جان غیور پر ہے ستم سا ستم کہ میرؔ
بگڑا جنھوں سے چاہیے ان سے بنائیے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *