میر تقی میر
دل جن کے بجا ہیں ان کو آتی ہے خواب
دل جن کے بجا ہیں ان کو آتی ہے خواب آرام خوش آتا ہے سہاتی ہے خواب میں غم زدہ کیا اپنے دنوں کو روؤں…
دل بیتاب آفت ہے بلا ہے
دل بیتاب آفت ہے بلا ہے جگر سب کھا گیا اب کیا رہا ہے ہمارا تو ہے اصل مدعا تو خدا جانے ترا کیا مدعا…
درد سر کا پہر پہر ہے اب
درد سر کا پہر پہر ہے اب زندگانی ہی درد سر ہے اب وہ دماغ ضعیف بھی نہ رہا بے دماغی ہی بیشتر ہے اب…
خوش سر انجام تھے وے جلد جو ہشیار ہوئے
خوش سر انجام تھے وے جلد جو ہشیار ہوئے ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے بے قراری سے دل زار کی آزار ہوئے…
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم وے جدا ہوئے ہیں
اب دیکھیں آہ کیا ہو ہم وے جدا ہوئے ہیں بے یار و بے دیار و بے آشنا ہوئے ہیں غیرت سے نام اس کا…
خط سے وہ زور صفائے حسن اب کم ہو گیا
خط سے وہ زور صفائے حسن اب کم ہو گیا چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا سینہ کوبی سنگ سے دل خون…
حلقہ ہوئی وہ زلف کماں کو چھپا رکھا
حلقہ ہوئی وہ زلف کماں کو چھپا رکھا طاق بلند پر اسے سب نے اٹھا رکھا اس مہ سے دل کی لاگ وہی متصل رہی…
چھن گیا سینہ بھی کلیجا بھی
چھن گیا سینہ بھی کلیجا بھی یار کے تیر جان لے جا بھی کیوں تری موت آئی ہے گی عزیز سامنے سے مرے ارے جا…
چلی جاتی ہی نکلی جان ہے تدبیر کیا کریے
چلی جاتی ہی نکلی جان ہے تدبیر کیا کریے مداوا سے مرض گذرا کہو اب میرؔ کیا کریے نہ رکھا کر کے زنجیری پریشاں دل…
چاہت میں خوبرویوں کی کیا جانے کیا نہ ہو
چاہت میں خوبرویوں کی کیا جانے کیا نہ ہو بیتاب دل کا مرگ کہیں مدعا نہ ہو بے لاگ عشق بازی میں مفلس کا ہے…
جی کی لاگ بلا ہے کوئی دل جینے سے اٹھا بیٹھو
جی کی لاگ بلا ہے کوئی دل جینے سے اٹھا بیٹھو ہوکے فقیر گلی میں کسو کی رنج اٹھاؤ جا بیٹھو کیا دیکھو ہو آگا…
جوش دل آئے بہم دیدۂ گریان ہوئے
جوش دل آئے بہم دیدۂ گریان ہوئے کتنے اک اشک ہوئے جمع کہ طوفان ہوئے کیا چھپیں شہر محبت میں ترے خانہ خراب گھر کے…
جنوں میں ساتھ تھا کل لڑکوں کا لشکر جہاں میں تھا
جنوں میں ساتھ تھا کل لڑکوں کا لشکر جہاں میں تھا چلے آتے تھے چاروں اور سے پتھر جہاں میں تھا تجلی جلوہ اس رشک…
جس ستم دیدہ کو اس عشق کا آزار ہوا
جس ستم دیدہ کو اس عشق کا آزار ہوا اک دو دن ہی میں وہ زار و زبوں خوار ہوا روز بازار میں عالم کے…
جب گل کہے ہے اپنے تئیں یار کے رو سا
جب گل کہے ہے اپنے تئیں یار کے رو سا تب آنکھوں تلے میری اترتا ہے لہو سا تحقیق کروں کس سے حقیقت کے نشے…
جب تک کہ ترا گذر نہ ہووے
جب تک کہ ترا گذر نہ ہووے جلوہ مری گور پر نہ ہووے لے تیغ و سپر کو تو جدھر ہو خورشید کا منھ ادھر…
ٹیڑھی نگاہیں کیا کرتے ہو دم بھر کے یاں آنے پر
ٹیڑھی نگاہیں کیا کرتے ہو دم بھر کے یاں آنے پر ایدھر دیکھو ہم نے نہیں کی خم ابرو مر جانے پر زور ہوا ہے…
تیرے قدم سے جا لگی جس پہ مرا ہے سر لگا
تیرے قدم سے جا لگی جس پہ مرا ہے سر لگا گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا سنگ مجھے بجاں قبول…
تن ہجر میں اس یار کے رنجور ہوا ہے
تن ہجر میں اس یار کے رنجور ہوا ہے بے طاقتی دل کو بھی مقدور ہوا ہے پہنچا نہیں کیا سمع مبارک میں مرا حال…
تجھ عشق میں تو مرنے کو تیار بہت ہیں
تجھ عشق میں تو مرنے کو تیار بہت ہیں یہ جرم ہے تو ایسے گنہگار بہت ہیں اک زخم کو میں ریزۂ الماس سے چیرا…
تا چند انتظار قیامت شتاب ہو
تا چند انتظار قیامت شتاب ہو وہ چاند سا جو نکلے تو رفع حجاب ہو احوال کی خرابی مری پہنچی اس سرے اس پر بھی…
پوچھو نہ کچھ اس بے سر و پا کی خواہش
پوچھو نہ کچھ اس بے سر و پا کی خواہش رکھتی نہیں حد اہل وفا کی خواہش جاتے ہیں چلے جی ہی بتوں کی خاطر…
پشت پا ماری بسکہ دنیا پر
پشت پا ماری بسکہ دنیا پر زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر…
بیتابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے
بیتابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے وقت شکیب خوش کہ گیا درمیان سے داغ فراق و حسرت وصل آرزوئے دید کیا کیا لیے…
بے خودی جو یہ ہے تو ہم آپ میں اب آ چکے
بے خودی جو یہ ہے تو ہم آپ میں اب آ چکے کیا تمھیں یاں سے چلے جاتے ہو ہم بھی جا چکے تم یہی…
بہار و باغ و گل و لالہ دلربا بن حیف
بہار و باغ و گل و لالہ دلربا بن حیف بھرے ہیں پھولوں سے جیب و کنار لیکن حیف
بسکہ ہے گردون دوں پرور دنی
بسکہ ہے گردون دوں پرور دنی ہووے پیوند زمیں یہ رفتنی بزم میں سے اب تو چل اے رشک صبح شمع کے منھ پر پھری…
برسوں تک جی کو مار مار رہے
برسوں تک جی کو مار مار رہے رات دن ہم امیدوار رہے موسم گل تلک رہے گا کون چبھتے ہی دل کو خار خار رہے…
باریک وہ کمر ہے ایسی کہ بال کیا ہے
باریک وہ کمر ہے ایسی کہ بال کیا ہے دل ہاتھ جو نہ آوے اس کا خیال کیا ہے جو بے کلی ہے ایسی چاہت…
آئے تو ہو طبیباں تدبیر گر کرو تم
آئے تو ہو طبیباں تدبیر گر کرو تم ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم رنگ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں…
آیا ہے شیب سر پہ گیا ہے شباب اب
آیا ہے شیب سر پہ گیا ہے شباب اب کرنا جو کچھ ہو تم کو سو کر لو شتاب اب بگڑا بنا ہوں عشق سے…
اے عشق کیا جو مجھ سا ہوا ناتواں ہلاک
اے عشق کیا جو مجھ سا ہوا ناتواں ہلاک کر ہاتھ ٹک ملا کے کوئی پہلواں ہلاک میں چل بسا تو شہر ہی ویران سب…
آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دعا یاد
آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دعا یاد آوے گی بہت ہم بھی فقیروں کی صدا یاد ہر آن وہ انداز ہے جس میں…
آنکھوں میں اپنی رات کو خوناب تھا سو تھا
آنکھوں میں اپنی رات کو خوناب تھا سو تھا جی دل کے اضطراب سے بے تاب تھا سو تھا آ کر کھڑا ہوا تھا بہ…
ان حنائی دست و پا سے دل لگی سی ہے ابھی
ان حنائی دست و پا سے دل لگی سی ہے ابھی میں نے ناخن بندی اپنی عشق میں کی ہے ابھی ہاتھ دل پر زور…
اگرچہ لعل بدخشاں میں رنگ ڈھنگ ہے شوخ
اگرچہ لعل بدخشاں میں رنگ ڈھنگ ہے شوخ پہ تیرے دونوں لبوں کا بھی کیا ہی رنگ ہے شوخ کبھو تو نیو چلا کر ستم…
اعجاز منھ تکے ہے ترے لب کے کام کا
اعجاز منھ تکے ہے ترے لب کے کام کا کیا ذکر یاں مسیح علیہ السلام کا رقعہ ہمیں جو آوے ہے سو تیر میں بندھا…
اس کے رنگ چمن میں شاید اور کھلا ہے پھول کوئی
اس کے رنگ چمن میں شاید اور کھلا ہے پھول کوئی شور طیور اٹھتا ہے ایسا جیسے اٹھے ہے بول کوئی یوں پھرتا ہوں دشت…
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا میر تقی میر
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے آتے ہی آتے…
ارض و سما میں عشق ہے ساری چاروں اور بھرا ہے عشق
ارض و سما میں عشق ہے ساری چاروں اور بھرا ہے عشق ہم ہیں جناب عشق کے بندے نزدیک اپنے خدا ہے عشق ظاہر و…
اچٹتی سی لگی اپنے تو وہ تلوار یا قسمت
اچٹتی سی لگی اپنے تو وہ تلوار یا قسمت ہوئے جس کے لگے کارآمدہ بیکار یا قسمت ہوئے جب سو جواں یک جا توقع سی…
آتی ہے مجلس میں تو فانوس میں آتی ہے شمع
آتی ہے مجلس میں تو فانوس میں آتی ہے شمع وہ سراپا دیکھ کر پردے میں جل جاتی ہے شمع
آپ اس جنس کے ہیں ہم بھی خریداروں میں
آپ اس جنس کے ہیں ہم بھی خریداروں میں پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں باغ فردوس کا ہے رشک وہ کوچہ لیکن…
اب کے جو گل کی فصل میں ہم کو جنوں ہوا
اب کے جو گل کی فصل میں ہم کو جنوں ہوا وہ دل کہ جس پہ اپنا بھروسا تھا خوں ہوا ٹھہرا گیا ہو ٹک…
یہ غلط کہ میں پیا ہوں قدح شراب تجھ بن
یہ غلط کہ میں پیا ہوں قدح شراب تجھ بن نہ گلے سے میرے اترا کبھو قطرہ آب تجھ بن یہی بستی عاشقوں کی کبھو…
یک دم میں خوں تو سوکھا مژگاں پہ ہوکے جاری
یک دم میں خوں تو سوکھا مژگاں پہ ہوکے جاری کر اے طپش جگر کی اب تو ہی آبیاری
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں ایک ایک قرط دور میں یوں…
ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے
ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے جیسے چراغ کوئی مہتاب میں جلاوے کیا رفتگی سے میری تم گفتگو کرو ہو کھویا گیا…