اب کے جو گل کی فصل میں ہم کو جنوں ہوا

اب کے جو گل کی فصل میں ہم کو جنوں ہوا
وہ دل کہ جس پہ اپنا بھروسا تھا خوں ہوا
ٹھہرا گیا ہو ٹک بھی تو تم سے بیاں کروں
آتے ہی اس کے رفتن صبر و سکوں ہوا
تھا شوق طوف تربت مجنوں مجھے بہت
اک گردباد دشت مرا رہنموں ہوا
سیلاب آگے آیا چلا جاتے دشت میں
بے اختیار رونے کا میرے شگوں ہوا
جان اس کی تیغ تیز سے رکھ کر دریغ میرؔ
صید حرم ندان شکار زبوں ہوا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *