جب گل کہے ہے اپنے تئیں یار کے رو سا

جب گل کہے ہے اپنے تئیں یار کے رو سا
تب آنکھوں تلے میری اترتا ہے لہو سا
تحقیق کروں کس سے حقیقت کے نشے کو
خضر آب اسے کہتا ہے آتش کہے موسیٰ
کیا دور ہے شربت پہ اگر قند کے تھوکے
ٹک جن نے ترے شربتی ان ہونٹوں کو چوسا
دم لا بہ کریں شیخ رکھیں شملے تو کیا ہے
ہونا مگر آسان ہے اس کے سگ کو سا
تعبیر جسے کرتے ہیں ہنگامۂ محشر
وہ یار کے کوچے کا ہے کچھ شور غلو سا
آرائش درویشی بھی اپنی نہیں بے لطف
ہے بوریے کا نقش مرے تن پہ اتو سا
کب کی ہے حدیث اس سے سخن کرنے کی میں نے
کیا میرؔ سے بولے کوئی ہے بیہدہ گو سا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *