ارض و سما میں عشق ہے ساری چاروں اور بھرا ہے عشق

ارض و سما میں عشق ہے ساری چاروں اور بھرا ہے عشق
ہم ہیں جناب عشق کے بندے نزدیک اپنے خدا ہے عشق
ظاہر و باطن اول و آخر پائیں بالا عشق ہے سب
نور و ظلمت معنی و صورت سب کچھ آپھی ہوا ہے عشق
ایک طرف جبریل آتا ہے ایک طرف لاتا ہے کتاب
ایک طرف پنہاں ہے دلوں میں ایک طرف پیدا ہے عشق
خاک و باد و آب و آتش سب ہے موافق اپنے تئیں
جو کچھ ہے سو عشق بتاں ہے کیا کہیے اب کیا ہے عشق
میرؔ کہیں ہنگامہ آرا میں تو نہیں ہوں چاہت کا
صبر نہ مجھ سے کیا جاوے تو معاف رکھو کہ نیا ہے عشق
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *