سیر و سفر کریں ذرا، سلسلہِ گماں چلے

سیر و سفر کریں ذرا، سلسلہِ گماں چلے
ہم تو چلے، کہاں چلے، بات یہ ہے کہاں چلے
ہم ہیں یہاں سے جا رہے، جانے کہاں ہیں جا رہے
خیر جہاں ہیں جا رہے، بس یہ سمجھ وہاں چلے
ان مہ و سال درمیاں، عہد ہوئے تھے کچھ یہاں
گریہ کناں یہاں سے آج، ہم سوئے شہر جاں چلے
ہے وہ چلا چلی کہ ہے، تھم نہ سکے جو تھم رہے
دائرہ ہائے کہکشاں، در پس کہکشاں شلے
کچھ بھی نہیں سفر سوا، کچھ بھی نہیں گزر سوا
تو نہیں چل رہا، نہ چل، تیری مگر کہاں چلے
حالت حال رفتگی، کچھ نہیں جز گزشتگی
ناگزراں نفس نفس، ہو کے گزشتگاں چلے
پاس ہو عرض صحن کا خاک عمارتوں کو اب
لے کے فراز ہائے بام، سوئے فلک مکاں چلے
کوئی جبیں نہ کر سکی، پاس نیاز آستاں
ہو کے جبین سے وداع، ناز کے آستاں چلے
مرے گلوں کو سن کے آئے تھے اب میں نہیں گلہ کناں
اتنا برا ہوں میں کہ آج تم بھی گلہ کناں چلے
اور کہیں بسائیں گے شہر جبین و آستاں
جو بھی جبیں ہو اٹھ رہے، جو بھی ہو آستاں چلے
زخم زیاں کے بھر بھی جائیں تب بھی انھیں کھرچ کے میں
تازہ کروں اگر مرے، رنگ کی یہ دکاں چلے
مژدہ ہمیں کہ ہم سے ہے، آج وہ امتحاں طلب
دل شکنی کو ہم سوئے منزل امتحاں چلے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *