مراخواب تھیں جو محبتیں

مراخواب تھیں جو محبتیں
مری آرزوؤں کے دیوتا !
میں عجیب تھی،میں عجب رہی
مجھے دشت غم کو بھی چھاننے کی طلب رہی
مری بات میںکوئی رات آکے ٹھہر گئی
مری ذات میں کوئی ذ ات آکے ٹھہر گئی
مجھے پھر بھی درد کو جانچنے کی طلب رہی
کئی رنج بھی ہیں ندامتوں سے ملے ہوئے
کئی شہر بھی ہیں عداوتیں سے بھرے ہوئے
کسی غم کے زور سے زرد ہے مرا شہر بھی
مجھے یادہے کسی شامِ غم کا وہ قہر بھی
یہ جولوگ ہیں ،یہ بڑے عجیب سے لوگ ہیں
یہ ابھی تلک نہ سمجھ سکے، ہے کمال کیا
ہے محبتوں کا جنوب کیا، ہے شمال کیا
ہے عروج ِ دردِحبیب کیا، ہے زوال کیا
یہ سمجھ سکے نہ کبھی ، ہے مجھ کو ملال کیا
مجھے وصلِ یار کے فلسفے پہ یقین ہے
یہ جوہجر ہے یہ کسی گمان سے کم نہیں
مری آنکھ دشت ہے مدتوں سے جونم نہیں
سبھی کچھ ہے بس یہاں تم نہیں
اے حبیبِ من ! اے طبیبِ جاں !
یہ جوچاشنی ہے حروف میں تیری دین ہے
یہ جو نقش ہیں مری آنکھ میں ہے ترا کرم
جو مٹھاس ہے مری بات میں تری بات ہے
مرا مجھ میں کچھ بھی نہیںرہا تری ذات ہے
اے فقیہِ شہر ترا بیان بھی جھوٹ ہے
مجھے عشق ہے تو پھر اس میں کوئی دلیل کیا
مجھے ضبط ملتا ہے روزگر تو یہ درد ،دردِ سبیل کیا
مری آرزؤں کے دیوتا ذرا دیکھ لے
مری روح وجد کی کیفیت میں گھری ہوئی
میں جوسانس سانس مری ہوئی
ترے در پہ کب سے پڑی ہوئی
کبھی دیکھ لے کبھی سار لے
یہ بتامجھے ہے قصورکیا
مرے دیوتا ،مرے بادشاہ
بڑے زخم ہیں
بڑے زخم ہیں مری روح پر
تجھے تیری شان کا واسطہ
مرے اندمال کے واسطے ذرا مسکرا
ذرا مسکرا کہ سکوں ملے
ذرا دور مجھ سے فشار ہو
مرے چارسو تراپیار ہو
مرے جسم و جاں کی خزاؤں میں بھی بہار ہو
تو پھر اس کے بعد وضاحتیں
یہ عداوتیں
مجھے کب ہیں راس سخاوتیں
وہی آفتیں
یہ مصیبیتں
مری زخم زخم عقیدتیں
مری درد درد ارادتیں
میں حقیقتوں سے کٹی ہوئی مرے چارہ گر
مجھے راس آئیں اذیتیں
مرا خواب تھیں جو محبتیں
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *