میر تقی میر
دیکھا کروں تجھی کو منظور ہے تو یہ ہے
دیکھا کروں تجھی کو منظور ہے تو یہ ہے آنکھیں نہ کھولوں تجھ بن مقدور ہے تو یہ ہے نزدیک تجھ سے سب ہے کیا…
دوستی نے تو ہماری جاں گدازی خوب کی
دوستی نے تو ہماری جاں گدازی خوب کی آہ اس دشمن نے یہ عاشق نوازی خوب کی گور پر آیا سمند ناز کو جولاں کیے…
دن گذرتا ہے مجھے فکر ہی میں تا کیا ہو
دن گذرتا ہے مجھے فکر ہی میں تا کیا ہو رات جاتی ہے اسی غم میں کہ فردا کیا ہو سب ہیں دیدار کے مشتاق…
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے عشق و مے خواری نبھے ہے کوئی درویشی…
دل کہے میں ہوں تو کاہے کو کوئی بیتاب ہو
دل کہے میں ہوں تو کاہے کو کوئی بیتاب ہو آنکھ کا لگنا نہ ہو تو اشک کیوں خوناب ہو وہ نہیں چھڑکاؤ سا میں…
دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو
دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ…
دل جو زیر غبار اکثر تھا
دل جو زیر غبار اکثر تھا کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن رات دن ہم تھے اور بستر…
دل پر تو چوٹ تھی ہی زخمی ہوا جگر سب
دل پر تو چوٹ تھی ہی زخمی ہوا جگر سب ہر دم بھری رہے ہے لوہو سے چشم تر سب حیف اس سے حال میرا…
درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے
درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے کہاں تک یوں پڑے بستر پہ رہیے…
خوں نہ ہوا دل چاہیے جیسا گو اب کام سے جاوے گا میر تقی میر
خوں نہ ہوا دل چاہیے جیسا گو اب کام سے جاوے گا کام اپنے وہ کیا آیا جو کام ہمارے آوے گا آنکھیں لگی رہتی…
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا زمانے میں مرے شور جنوں نے قیامت کا سا ہنگامہ…
اب اس کے غم سے جو کوئی چاہے سو کھائے داغ
اب اس کے غم سے جو کوئی چاہے سو کھائے داغ باقی نہیں ہے چھاتی میں اپنی تو جائے داغ چشم و دل و دماغ…
حیرت طلب کو کام نہیں ہے کسو کے ساتھ
حیرت طلب کو کام نہیں ہے کسو کے ساتھ جان عزیز ابھی ہے مری آبرو کے ساتھ یک رنگ آشنا ہیں خرابات ہی کے لوگ…
حال دل میرؔ کا اے اہل وفا مت پوچھو
حال دل میرؔ کا اے اہل وفا مت پوچھو اس ستم کشتہ پہ جو گذری جفا مت پوچھو صبح سے اور بھی پاتا ہوں اسے…
چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور
چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور وہ کیا یہ دل لگے ہے…
چپکا چپکا پھرا نہ کر تو غم سے
چپکا چپکا پھرا نہ کر تو غم سے کیا حرف و سخن عیب ہے کچھ محرم سے آخر کو رکے رہتے جنوں ہوتا ہے اے…
جیسا مزاج آگے تھا میرا سو کب ہے اب
جیسا مزاج آگے تھا میرا سو کب ہے اب ہر روز دل کو سوز ہے ہر شب تعب ہے اب سدھ کچھ سنبھالتے ہی وہ…
جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں
جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں ضبط گریہ نے جلایا ہے درونہ سارا دل…
جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف
جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف کوئی داد دل آہ کس سے کرے ہر اک ہے…
جنوں کا عبث میرے مذکور ہے
جنوں کا عبث میرے مذکور ہے جوانی دوانی ہے مشہور ہے کہو چشم خوں بار کو چشم تم خدا جانے کب کا یہ ناسور ہے…
جس کو ہوا ہے اس صنم بے وفا سے ربط
جس کو ہوا ہے اس صنم بے وفا سے ربط اس کو خدا ہی ہووے تو ہو کچھ خدا سے ربط گل ہو کے برگ…
جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش ہوش نہ کھولے ٹک
جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش ہوش نہ کھولے ٹک چپکے چپکے کسو کو چاہا پوچھا بھی تو نہ بولے ٹک اب جو…
جب بٹھاویں مجھے جلاد جفا کار کے پاس
جب بٹھاویں مجھے جلاد جفا کار کے پاس تو بھی ٹک آن کھڑا ہو جو گنہگار کے پاس درد مندوں سے تمھیں دور پھرا کرتے…
جاگنا تھا ہم کو سو بیدار ہوتے رہ گئے
جاگنا تھا ہم کو سو بیدار ہوتے رہ گئے کارواں جاتا رہا ہم ہائے سوتے رہ گئے بوئے گل پیش از سحر گلزار سے رخصت…
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور…
تھا محبت سے کبھو ہم میں کبھو یہ غم میں تھا
تھا محبت سے کبھو ہم میں کبھو یہ غم میں تھا دل کا ہنگامہ قیامت خاک کے عالم میں تھا کیا ہوا پہلو سے دل…
تسکین درد مندوں کو یارب شتاب دے
تسکین درد مندوں کو یارب شتاب دے دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے اس کا غضب سے نامہ نہ لکھنا تو سہل…
تدبیر کوئی بتاوے جو آپ کو سنبھالیں
تدبیر کوئی بتاوے جو آپ کو سنبھالیں جینے کی اپنے ہم بھی کوئی طرح نکالیں قالب میں جی نہیں ہے اس بن ہمارے گویا حیران…
تاچند ترے غم میں یوں زار رہا کیجے
تاچند ترے غم میں یوں زار رہا کیجے امید عیادت پر بیمار رہا کیجے نے اب ہے جگرکاوی نے سینہ خراشی ہے کچھ جی میں…
پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے
پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے کیا تازہ کوئی گل نے اب شاخ نکالی ہے سچ پوچھو تو کب ہے…
پائے پر آبلہ سے مجھ کو بنی گئی ہے
پائے پر آبلہ سے مجھ کو بنی گئی ہے صحرا میں رفتہ رفتہ کانٹوں نے سر اٹھایا
بے طاقتی نے دل کی گرفتار کر دیا
بے طاقتی نے دل کی گرفتار کر دیا اندوہ و درد عشق نے بیمار کر دیا دروازے پر کھڑا ہوں کئی دن سے یار کے…
بہت ہے تن درد پرورد زرد
بہت ہے تن درد پرورد زرد اٹھے گی مری خاک سے گرد زرد وہ بیمار گو تو نہ جانے مجھے مرا نامہ لکھنے کو ہو…
بلبل کا شور سن کے نہ مجھ سے رہا گیا
بلبل کا شور سن کے نہ مجھ سے رہا گیا میں بے دماغ باغ سے اٹھ کر چلا گیا لوگوں نے پائی راکھ کی ڈھیری…
برق و شرار و شعلہ و پروانہ سب ہیں یے
برق و شرار و شعلہ و پروانہ سب ہیں یے جوں ہم جلا کریں ہیں بھلا جلتے کب ہیں یے لے موئے سر سے ناخن…
باغ میں سیر کبھو ہم بھی کیا کرتے تھے
باغ میں سیر کبھو ہم بھی کیا کرتے تھے روش آب رواں پھیلے پھرا کرتے تھے غیرت عشق کسو وقت بلا تھی ہم کو تھوڑی…
آئے ہیں میرؔ کافر ہو کر خدا کے گھر میں
آئے ہیں میرؔ کافر ہو کر خدا کے گھر میں پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں نازک بدن ہے کتنا وہ شوخ چشم…
ایسے دیکھے ہیں اندھے لوگ کہیں
ایسے دیکھے ہیں اندھے لوگ کہیں پھوٹی سہتے ہیں آنجی سہتے نہیں مر گئے ناامید ہم مہجور خواہشیں جی کی اپنے جی میں رہیں دیر…
اے مرغ چمن صبح ہوئی زمزمہ سر کر
اے مرغ چمن صبح ہوئی زمزمہ سر کر دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر وہ آئینہ رو باغ کے پھولوں میں جو…
آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد جینا مرا تو تجھ کو غنیمت ہے ناسمجھ…
آنکھیں سفید دل بھی جلا انتظار میں
آنکھیں سفید دل بھی جلا انتظار میں کیا کچھ نہ ہم بھی دیکھ چکے ہجر یار میں دنیا میں ایک دو نہیں کرتا کوئی مقام…
ان نے کھینچا ہے مرے ہاتھ سے داماں اپنا
ان نے کھینچا ہے مرے ہاتھ سے داماں اپنا کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا بارہا جاں لب جاں بخش سے دی جن…
آگے جمال یار کے معذور ہو گیا میر تقی میر
آگے جمال یار کے معذور ہو گیا گل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہو گیا اک چشم منتظر ہے کہ دیکھے ہے کب سے…
افیوں ہی کے تو دل شدہ ہم رو سیاہ ہیں
افیوں ہی کے تو دل شدہ ہم رو سیاہ ہیں ہو تخت کچھ دماغ تو ہم پادشاہ ہیں یاں جیسے شمع بزم اقامت نہ کر…
اس کی گلی میں غش جو کیا آسکے نہ ہم
اس کی گلی میں غش جو کیا آسکے نہ ہم پھر ہو چکے وہیں کہیں گھر جاسکے نہ ہم سوئے تو غنچہ ہو کسو گلخن…
اس شوخ ستمگر کو کیا کوئی بھلا چاہے
اس شوخ ستمگر کو کیا کوئی بھلا چاہے جو چاہنے والے کا ہر طور برا چاہے کعبے گئے کیا کوئی مقصد کو پہنچتا ہے کیا…
آزار کش کو اس کے آزار ہے ہمیشہ
آزار کش کو اس کے آزار ہے ہمیشہ آزردہ دل کسو کا بیمار ہے ہمیشہ مختار عشق اس کا مجبور ہی ہے یعنی یک رہ…
آخر دکھائی عشق نے چھاتی فگار کر
آخر دکھائی عشق نے چھاتی فگار کر تصدیع کھینچی ہم نے یہ کام اختیار کر اس باعث حیات سے کیا کیا ہیں خواہشیں پر دم…
آج کچھ بے حجاب ہے وہ بھی
آج کچھ بے حجاب ہے وہ بھی کیا ہی مست شراب ہے وہ بھی میں ہی جلتا نہیں جدا دل سے دور مجھ سے کباب…