اَبد

اَبد
درد لے آیا کہاں
رات کا آخری ویرانہ سرِ دشتِ جنوں
دن تہہِ خاک سکوں
شام گم سم ہے بہ اندازِ بُتاں
درد لے آیا کہاں
ہاتھ میں ہجر کے بس دامنِ تنہائی ہے
راکھ کا شہر سا آباد ہے رسوائی ہے
راکھ کا رنگ عجب، رُوپ عجب دھوپ عجب
کوئی سورج بھی دکھائی نہیں دیتا اور پھر
حوصلہ دشت میں نکلا ہوا نابینا ہے
خواب، بے خوابی، تمنا، حسرت
کیا خبر کس نے ابھی جینا ہے
اور کس کس نے ابھی جینا ہے بے سود یہاں
درد لے آیا کہاں
دردلے آیا کہاں
یہ تو کوئی اور جگہ ہے شاید
عمر کے نیزے میں اُڑسی ہوئی بے مہروفا
عشق کی آگ میں گیلی لکڑی
آنکھ میں چبھتا ہوا تہز دھواں
ریت میں لپٹا ہوا سارا جہاں سارا جہاں
درد لے آیا کہاں
درد لے آیا کہاں
شام گم سم ہے بہ اندازِ بتاں
درد لے آیا کہاں؟
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *