میر تقی میر
غفلت میں گئی آہ مری ساری جوانی
غفلت میں گئی آہ مری ساری جوانی اے عمر گذشتہ میں تری قدر نہ جانی تھی آبلۂ دل سے ہمیں تشنگی میں چشم پھوٹا تو…
عشق ہو حیوان کا یا انس ہو انسان کا
عشق ہو حیوان کا یا انس ہو انسان کا لاگ جی کی جس سے ہو دشمن ہے اپنی جان کا عاشق و معشوق کی میں…
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں بے کلی دل ہی کی تماشا ہے برق میں ایسے…
عشق سے دل پہ تازہ داغ جلا
عشق سے دل پہ تازہ داغ جلا اس سیہ خانے میں چراغ جلا میرؔ کی گرمی تم سے اچرج ہے کس سے ملتا ہے یہ…
عجب گر تیری صورت کا نہ کوئی یار عاشق ہو
عجب گر تیری صورت کا نہ کوئی یار عاشق ہو جو صحن خانہ میں تو ہو در و دیوار عاشق ہو تجھے اک بار اگر…
ظالم کہیں تو مل کبھو دارو پیے ہوئے
ظالم کہیں تو مل کبھو دارو پیے ہوئے پھرتے ہیں ہم بھی ہاتھ میں سر کو لیے ہوئے آؤ گے ہوش میں تو ٹک اک…
طاقت تعب کی غم میں تمھارے نہیں ہے اب
طاقت تعب کی غم میں تمھارے نہیں ہے اب گویا کہ جان جسم میں سارے نہیں ہے اب کل کچھ صبا ہوئی تھی گل افشاں…
صبر کیا جاتا نہیں ہم سے ضعف بھی ہے بیتابی ہے
صبر کیا جاتا نہیں ہم سے ضعف بھی ہے بیتابی ہے سہل نہیں ہے جی کا ڈھہنا کیسی خانہ خرابی ہے آگے ایسا نکھرا نکھرا…
شیخ جی آؤ مصلیٰ گرو جام کرو
شیخ جی آؤ مصلیٰ گرو جام کرو جنس تقویٰ کے تئیں صرف مئے خام کرو فرش مستاں کرو سجادۂ بے تہ کے تئیں مے کی…
شرر سے اشک ہیں اب چشم تر میں
شرر سے اشک ہیں اب چشم تر میں لگی ہے آگ اک میرے جگر میں نگین عاشق و معشوق کے رنگ جدا رہتے ہیں ہم…
شاد افیونیوں کا دل غمناک
شاد افیونیوں کا دل غمناک دشت دشت اب کے ہے گل تریاک تین دن گور میں بھی بھاری ہیں یعنی آسودگی نہیں تہ خاک ہاتھ…
سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ
سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ ہم بے گنہ اس کے ہیں گنہگار ہمیشہ ایک آن گذر جائے تو کہنے میں کچھ آوے درپیش…
سعی سے اس کی ہوا مائل گریباں چاک پر
سعی سے اس کی ہوا مائل گریباں چاک پر آفریں کر اے جنوں میرے کف چالاک پر کیوں نہ ہوں طرفہ گلیں خوش طرح بعضی…
سحرگہ عید میں دور سبو تھا
سحرگہ عید میں دور سبو تھا پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا غلط تھا آپ سے غافل گذرنا نہ سمجھے ہم کہ اس…
ساقی کی باغ پر جو کچھ کم نگاہیاں ہیں
ساقی کی باغ پر جو کچھ کم نگاہیاں ہیں مانند جام خالی گل سب جماہیاں ہیں تیغ جفائے خوباں بے آب تھی کہ ہمدم زخم…
زانو پہ قد خم شدہ سر کو لایا
زانو پہ قد خم شدہ سر کو لایا جاے دنداں کو ہم نے خالی پایا آنکھوں کی بصارت میں تفاوت آیا پیری نے عجب سماں…
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری برنگ صوت جرس تجھ سے دور ہوں تنہا خبر نہیں…
رنجش کی کوئی اس کی روایت نہ سنی
رنجش کی کوئی اس کی روایت نہ سنی بے صرفہ کسو وقت حکایت نہ سنی تھا میرؔ عجب فقیر صابر شاکر ہم نے اس سے…
رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں
رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں کہ مل جاتا ہے ان جوؤں کا پانی بحر رحمت میں سنبھالے سدھ کہاں سر ہی…
راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھیے
راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھیے مائل دل کو تنک قضا پر رکھیے بندوں سے تو کچھ کام نہ نکلا اے میرؔ سب کچھ…
دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیاں ہیں
دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیاں ہیں اب ہم نے بھی کسو سے آنکھیں لڑائیاں ہیں ٹک سن کہ سو برس کی ناموس…
دیر کب رہنا ملے ہے یاں نہیں مہلت بہت
دیر کب رہنا ملے ہے یاں نہیں مہلت بہت دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت کم نہیں دیوانہ ہونا بھی ہمارا دفعتہً…
دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے
دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے کثرت غم سے دل لگا رکنے حضرت دل میں آج دنگل…
دل مرا مضطرب نہایت ہے
دل مرا مضطرب نہایت ہے رنج و حرماں کی یہ بدایت ہے منھ ادھر کر کبھو نہ وہ سویا کیا دعا شب کی بے سرایت…
دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی کہیے تو جی ماریں ہیں
دل کی تہ کی کہی نہیں جاتی کہیے تو جی ماریں ہیں رک کر پھوٹ بہیں جو آنکھیں رود کی سی دو دھاریں ہیں حرف…
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا اک گرد راہ تھا پئے محمل تمام راہ…
دل دماغ و جگر یہ سب اک بار
دل دماغ و جگر یہ سب اک بار کام آئے فراق میں اے یار کیوں نہ ہو ضعف غالب اعضا پر مر گئے ہیں قشون…
دل جگر دونوں پر جلائے داغ
دل جگر دونوں پر جلائے داغ عشق نے کیا ہمیں دکھائے داغ دل جلے ہم نہیں رہے بیکار زخم کاری اٹھائے کھائے داغ جل گئے…
دشمن ہو جی کا گاہک ہوتا ہے جس کو چاہا
دشمن ہو جی کا گاہک ہوتا ہے جس کو چاہا کی دوستی کہ یارو اک روگ میں بساہا جی ہے جہاں قیامت درد و الم…
داغ ہوں جلتا ہے دل بے طور اب
داغ ہوں جلتا ہے دل بے طور اب دیکھیے کیا گل کھلے ہے اور اب زخم دل غائر ہو پہنچا تا جگر تم لگے کرنے…
خورشید تیرے چہرے کے آگو نہ آسکے
خورشید تیرے چہرے کے آگو نہ آسکے اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے ہم گرم رو ہیں راہ فنا کے شرر…
اب تنگ ہوں بہت میں مت اور دشمنی کر
اب تنگ ہوں بہت میں مت اور دشمنی کر لاگو ہو میرے جی کا اتنی ہی دوستی کر جب تک شگاف تھے کچھ اتنا نہ…
خدا جانیے ہووے گی کیا نہایت
خدا جانیے ہووے گی کیا نہایت اجل تو ہے دل کے مرض کی بدایت سخن غم سے آغشتہ خوں ہے ولیکن نہیں لب مرے آشنائے…
حالانکہ کام پہنچ گیا کب کا جاں تلک
حالانکہ کام پہنچ گیا کب کا جاں تلک آتی نہیں ہے تو بھی شکایت زباں تلک اس رشک مہ کے دل میں نہ مطلق کیا…
چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت
چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت امکاں نہیں جیتے جی ہو اس قید سے آزاد مر…
چشم سے خوں ہزار نکلے گا
چشم سے خوں ہزار نکلے گا کوئی دل کا بخار نکلے گا اس کی نخچیر گہ سے روح الامیں ہو کے آخر شکار نکلے گا…
چال یہ کیا تھی کہ ایدھر کو گذارا نہ کیا
چال یہ کیا تھی کہ ایدھر کو گذارا نہ کیا دور ہی دور پھرے پاس ہمارا نہ کیا اس کو منظور نہ تھی ہم سے…
جی رشک سے گئے جو ادھر کو صبا چلی
جی رشک سے گئے جو ادھر کو صبا چلی کیا کہیے آج صبح عجب کچھ ہوا چلی کیا رنگ و بو و بادسحر سب ہیں…
جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو
جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو نہ دیکھو غنچۂ نرگس کی اور کھلتے…
جھوٹ ہر چند نہیں یار کی گفتار کے بیچ
جھوٹ ہر چند نہیں یار کی گفتار کے بیچ دیر لیکن ہے قیامت ابھی دیدار کے بیچ کس کی خوبی کے طلبگار ہیں عزت طلباں…
جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا
جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسولؐ کا حق کی طلب ہے کچھ تو محمدؐ پرست ہو…
جدائی تا جدائی فرق ہے ملتے بھی ہیں آ کر
جدائی تا جدائی فرق ہے ملتے بھی ہیں آ کر فراق ایسا نہیں ہوتا کہ پھر آتے نہیں جا کر اگرچہ چپ لگی ہے عاشقی…
جب سے اس بے وفا نے بال رکھے
جب سے اس بے وفا نے بال رکھے صید بندوں نے جال ڈال رکھے ہاتھ کیا آوے وہ کمر ہے ہیچ یوں کوئی جی میں…
جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم
جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم ہم اپنی چاک جیب کو…
ٹک پاس آ کے کیسے صرفے سے ہیں کشیدہ
ٹک پاس آ کے کیسے صرفے سے ہیں کشیدہ گویا کہ ہیں یہ لڑکے پیر زمانہ دیدہ اب خاک تو ہماری سب سبز ہو چلی…
تم تو اے مہرباں انوٹھے نکلے
تم تو اے مہرباں انوٹھے نکلے جب آن کے پاس بیٹھے روٹھے نکلے کیا کہیے وفا ایک بھی وعدہ نہ کیا سچ یہ ہے کہ…
تری پلکیں چبھتی نظر میں بھی ہیں
تری پلکیں چبھتی نظر میں بھی ہیں یہ کانٹے کھٹکتے جگر میں بھی ہیں رہے پھرتے دریا میں گرداب سے وطن میں بھی ہیں ہم…
تجھ بن اے نوبہار کے مانند
تجھ بن اے نوبہار کے مانند چاک ہے دل انار کے مانند پہنچی شاید جگر تک آتش عشق اشک ہیں سب شرار کے مانند کو…
پیغمبر حق کہ حق دکھایا اس کا
پیغمبر حق کہ حق دکھایا اس کا معراج ہے کمترین پایہ اس کا سایہ جو اسے نہ تھا یہ باعث ہے گا کل حشر کو…