جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو

جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو
کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو
نہ دیکھو غنچۂ نرگس کی اور کھلتے میں
جو دیکھو اس کی مژہ نیم باز کرنے کو
نہ سوئے نیند بھر اس تنگنا میں تا نہ موئے
کہ آہ جا نہ تھی پا کے دراز کرنے کو
جو بے دماغی یہی ہے تو بن چکی اپنی
دماغ چاہیے ہر اک سے ساز کرنے کو
وہ گرم ناز ہو تو خلق پر ترحم کر
پکارے آپ اجل احتراز کرنے کو
جو آنسو آویں تو پی جا کہ تا رہے پردہ
بلا ہے چشم تر افشائے راز کرنے کو
سمند ناز سے تیرے بہت ہے عرصہ تنگ
تنک تو ترک کر اس ترک تاز کرنے کو
بسان زر ہے مرا جسم زار سارا زرد
اثر تمام ہے دل کے گداز کرنے کو
ہنوز لڑکے ہو تم قدر میری کیا جانو
شعور چاہیے ہے امتیاز کرنے کو
اگرچہ گل بھی نمود اس کے رنگ کرتا ہے
ولیک چاہیے ہے منھ بھی ناز کرنے کو
زیادہ حد سے تھی تابوت میرؔ پر کثرت
ہوا نہ وقت مساعد نماز کرنے کو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *