دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے

دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے
جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے
کثرت غم سے دل لگا رکنے
حضرت دل میں آج دنگل ہے
روز کہتے ہیں چلنے کو خوباں
لیکن اب تک تو روز اول ہے
چھوڑ مت نقد وقت نسیہ پر
آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے
بند ہو تجھ سے یہ کھلا نہ کبھو
دل ہے یا خانۂ مقفل ہے
سینہ چاکی بھی کام رکھتی ہے
یہی کر جب تلک معطل ہے
اب کے ہاتھوں میں شوق کے تیرے
دامن بادیہ کا آنچل ہے
ٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھ
دل بھی کیا لق و دق جنگل ہے
ہجر باعث ہے بدگمانی کا
غیرت عشق ہے تو کب کل ہے
مر گیا کوہکن اسی غم میں
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *