وہ کیسا خوف تھا کہ رختِ سفر بھی بھول گئے

وہ کیسا خوف تھا کہ رختِ سفر بھی بھول گئے
وہ کون لوگ تھے جو اپنے گھر بھی بھول گئے
یہ کیسی قوتِ پرواز ڈر نے پیدا کی
پرندے اڑتے ہوئے اپنے پر بھی بھول گئے
دکھوں نے چھین لی آنکھوں کی ساری بینائی
ہم اس کا شہر تو کیا رہگزر بھی بھول گئے
خیال تھا کہ سنائیں گے حالِ دل لیکن
ہم اس کے سامنے عرضِ ہنر بھی بھول گئے
جدا ہوئے تو کھلا ہے تمہاری بستی میں
ہم ایک دل ہی نہیں، چشمِ تر بھی بھول گئے
نوشی گیلانی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *