لگ گئیں ہم کو دعائیں موت کی
کھیلتی ہے دل کی شریانوں کے ساتھ
کتنی دلکش ہیں ادائیں موت کی
دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہو گیا
چل پڑیں جیسے ہوائیں موت کی
اب سمندر کے سوا کچھ بھی نہیں
آ کوئی کشتی بنائیں موت کی
میں کہاں تک آ گیا ہوں اور کیوں
مجھ کو آتی ہیں صدائیں موت کی
ہم تمھارے سوگ میں زندہ رہیں
ہم بھی اک شمع جلائیں موت کی
ایک قبرستان ہے اور اک نگر
کونسی بستی بسائیں موت کی
میں ہی ہوں جو اس کو کرتا ہوں بسر
لوگ تو رسمیں نبھائیں موت کی
دے دیا سارا سکوں رب نے اسے
اور مجھے ساری سزائیں موت کی
اک یہی اب رہ گئی ہے میرے پاس
دیکھ لو مجھ سے وفائیں موت کی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)