کبھو میرؔ اس طرف آ کر جو چھاتی کوٹ جاتا ہے

کبھو میرؔ اس طرف آ کر جو چھاتی کوٹ جاتا ہے
خدا شاہد ہے اپنا تو کلیجا ٹوٹ جاتا ہے
خرابی دل کی کیا انبوہ درد و غم سے پوچھو ہو
وہی حالت ہے جیسے شہر لشکر لوٹ جاتا ہے
شکست اس رنگ آئی بے خودی عشق میں دل پر
نشے میں مست سے جیسے کہ شیشہ پھوٹ جاتا ہے
نہ یوں ہووے کہ اٹھ جاؤں کہ ہے افسوس کی جاگہ
جب ایسا طائر خوش لہجہ پھنس کر چھوٹ جاتا ہے
نہیں کچھ عقل میں آتا کہ دیوانہ سا میرؔ ایدھر
کبھو آتا جو ہے کیدھر کو مارے زوٹ جاتا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *