ہم بے سَر بے نام

ہم بے سَر بے نام
پیروں میں چبھ جانے والے پتھر ہوں یا ریت
لمبے لمبے صحرا ہوں
یا مرے ہوئے دریا
سر سے اونچی راہیں ہوں
یا پاتالوں کی تہہ
ٹوٹا پھوٹا بُرج ہو کوئی
یا کوئی مینار
یا آنکھوں میں دُور کہیں کچھ خدشوں کے آثار
ہم فوراً ہی جھُک جانے کے عادی ہیں مدّام
اپنی اپنی پیشانی پر لکھ کر اپنی جنس
اپنے اپنے گلے میں ڈال کے اپنے اپنے دام
ہم بے سَر بے نام
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *