میں جوانی میں مے پرست رہا

میں جوانی میں مے پرست رہا
گردن شیشہ ہی میں دست رہا
در میخانہ میں مرے سر پر
ظل ممدود دار بست رہا
سر پہ پتھر جنوں میں کب نہ پڑے
یہ سبو ثابت شکست رہا
ہاتھ کھینچا سو پیر ہو کر جب
تب گنہ کرنے کا نہ دست رہا
آنسو پی پی گیا جو برسوں میں
دل درونے میں آب خست رہا
جب کہو تب بلند کہیے اسے
قد خوباں کا سرو پست رہا
میرؔ کے ہوش کے ہیں ہم عاشق
فصل گل جب تلک تھی مست رہا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *