گلا آنسوؤں سے بھر گیا

گلا آنسوؤں سے بھر گیا
کبھی بھی کہہ نہ پاتا
ایک جھجھک
ایک ضد
ایک انا آڑے آجاتی
شاید اس بچے کا احساس
جس کے پاؤں میلے
اور ہاتھ گرد آلود ہوتے
اور وہ سرابی کے گرد
صاف شفاف کپڑوں والے اجنبیوں کو دیکھ کر گھبراتا جاتا
کبھی انہیں دیکھتا
کبھی اپنے آپ کو
اور کبھی سرابی کو
بے نیاز اور لاپرواہ سرابی کو دیکھتا
اور روہانسا ہو جاتا
اس کے سینے میں سرابی کی لاپرواہی چبھ جاتی
گلا آنسوؤں سے بھر جاتا
وہ تھکا تھکا، ہارا ہارا، اپنے گھر لوٹ آتا
فیصلہ کرتا
آئندہ سرابی سے کبھی نہیں ملے گا
پھر وہ مدتوں اس سے نہ ملتا
لیکن بھٹکتا رہتا
اپنی ہی اداسیوں میں بھٹکتا رہتا
اپنی ہی وحشتوں اور ویرانیوں میں بھٹکتا رہتا
اپنے خوابوں سے ٹکراتا
اور خیالوں سے سر پھوڑتا
اور تنہائیوں کے بال نوچتا
موسموں کے گریبان پھاڑتا
اور تار تار کر دیتا
دھول اڑاتا
اور تھک جاتا
ٹوٹ پھوٹ جاتا
ریزہ ریزہ ہو جاتا
پھر اسے پکارتا
زور زور سے پکارتا
اور سوچتا
سوچتا رہتا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *