عبث

عبث
دل کے داغوں کا چراغاں کیا کہوں
رونقِ شبِ ہاے ہجراں کیا کہوں
ہو گئے تاریک میرے سارے خواب
اُن کی تعبیرِ درخشاں کیا کہوں
بس عجب کچھ ہو گیا ہے میرے ساتھ
میں جو ہوں میں کیا کہوں،ہاں، کیا کہوں
داستانِ شرم کی سُرخی ہو تم
جانِ جاناں، جانِ جاناں، کیا کہوں
خوش بیانوں میں تمہارا ذکر ہے
رُوح کے رازوں کی رسوائی ہوئی
دل کے اندازوں کی رسوائی ہوئی
جو تھے سرمایہ ہماری ذات کا
اپنے اُن نازوں کی رسوائی ہوئی
نو جوانوں میں تمہارا ذکر ہے
لوگ ہیں سرکار! ہم پر خندہ زن
عہد ہائے دم بہ دم پر خندہ زن
طعنہ زن ہے انبساطِ وصل پر
ہجر کی چشمانَ نم پر خندہ زن
دل ہے جن زُلفوں کا اس دم تک اسیر
اب ہیں محرم اُن کے خم پر خندہ زن
اک ندامت بن گئے ہیں جان و دل
ہیں سبھی اُن کے بھرم پر خندہ زن
خاندانوں میں تمہارا ذکر ہے
تم تو وہ تھی، جس سے تھی آنِ وفا
تم تو تھی جانانہ، جانانِ وفا
کس طرح بچھڑیں تم اپنے آپ سے
لُٹ گیا سب سازو سامانِ وفا
تم، وفا کو قتل کر سکتی ہو تم
تم کے تھی اُمید و ارمانِ وفا
تھے بھلا کھینچے ہی جانے کیلئے
جان ! دامان و گریبانِ وفا
یعنی آنسوں ہچکیاں سب کچھ تھا جھوٹ
تھا عبث ہر عہد و پیمانِ وفا
قہوہ خانوں میں تمہارا ذکر ہے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *